(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا محمد بن ابي حرملة، اخبرني كريب، ان ام الفضل بنت الحارث بعثته إلى معاوية بالشام، قال: فقدمت الشام فقضيت حاجتها واستهل علي هلال رمضان وانا بالشام، فراينا الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني ابن عباس ثم ذكر الهلال، فقال: متى رايتم الهلال؟ فقلت: رايناه ليلة الجمعة، فقال: اانت رايته ليلة الجمعة؟ فقلت: رآه الناس وصاموا وصام معاوية، قال: لكن رايناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما او نراه، فقلت: الا تكتفي برؤية معاوية وصيامه؟ قال: لا، هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: حديث ابن عباس حديث حسن صحيح غريب، والعمل على هذا الحديث عند اهل العلم ان لكل اهل بلد رؤيتهم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْنَا الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَأَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ فَقُلْتُ: رَآهُ النَّاسُ وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ، قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَلَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ؟ قَالَ: لَا، هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ.
کریب بیان کرتے ہیں کہ ام فضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی الله عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور (اسی درمیان) رمضان کا چاند نکل آیا، اور میں شام ہی میں تھا کہ ہم نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا ۱؎، پھر میں مہینے کے آخر میں مدینہ آیا تو ابن عباس رضی الله عنہما نے مجھ سے وہاں کے حالات پوچھے پھر انہوں نے چاند کا ذکر کیا اور کہا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہم نے اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، تو انہوں نے کہا: کیا تم نے بھی جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ تو میں نے کہا: لوگوں نے اسے دیکھا اور انہوں نے روزے رکھے اور معاویہ رضی الله عنہ نے بھی روزہ رکھا، اس پر ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: لیکن ہم نے اسے ہفتہ (سنیچر) کی رات کو دیکھا، تو ہم برابر روزے سے رہیں گے یہاں تک کہ ہم تیس دن پورے کر لیں، یا ہم ۲۹ کا چاند دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا آپ معاویہ کے چاند دیکھنے اور روزہ رکھنے پر اکتفا نہیں کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حکم دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ہر شہر والوں کے لیے ان کے خود چاند دیکھنے کا اعتبار ہو گا۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ روزہ رکھنے اور توڑنے کے سلسلہ میں چاند کی رویت ضروری ہے، محض فلکی حساب کافی نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے معتبر ہو گی یا نہیں؟ تو اس سلسلہ میں علماء میں اختلاف ہے جو گروہ معتبر مانتا ہے وہ کہتا ہے کہ «صوموا» اور «افطروا» کے مخاطب ساری دنیا کے مسلمان ہیں اس لیے کسی ایک علاقے کی رویت دنیا کے سارے علاقوں کے لیے رویت ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقے کے لیے کافی نہیں ان کا کہنا ہے کہ اس حکم کے مخاطب صرف وہ مسلمان ہیں جنہوں نے چاند دیکھا ہو، جن علاقوں میں مسلمانوں نے چاند دیکھا ہی نہیں وہ اس کے مخاطب ہی نہیں، اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہر علاقے کے لیے اپنی الگ رویت ہے جس کے مطابق وہ روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کے فیصلے کریں گے، اس سلسلہ میں ایک تیسرا قول بھی ہے کہ جو علاقے مطلع کے اعتبار سے قریب قریب ہیں یعنی ان کے طلوع و غروب میں زیادہ فرق نہیں ہے ان علاقوں میں ایک علاقے کی رویت دوسرے علاقوں کے لیے کافی ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " فرض زكاة الفطر من رمضان، صاعا من تمر او صاعا من شعير، على كل حر او عبد ذكر او انثى من المسلمين ". قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح. وروى مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث ايوب، وزاد فيه من المسلمين، ورواه غير واحد عن نافع، ولم يذكر فيه من المسلمين، واختلف اهل العلم في هذا، فقال بعضهم: إذا كان للرجل عبيد غير مسلمين لم يؤد عنهم صدقة الفطر، وهو قول مالك، والشافعي، واحمد، وقال بعضهم: يؤدي عنهم وإن كانوا غير مسلمين، وهو قول الثوري، وابن المبارك، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرَوَى مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ أَيُّوبَ، وَزَادَ فِيهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَرَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي هَذَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُؤَدِّي عَنْهُمْ وَإِنْ كَانُوا غَيْرَ مُسْلِمِينَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مالک نے بھی بطریق: «نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» ایوب کی حدیث کی طرح روایت کی ہے البتہ اس میں «من المسلمين» کا اضافہ ہے۔ ۳- اور دیگر کئی لوگوں نے نافع سے روایت کی ہے، اس میں «من المسلمين» کا ذکر نہیں ہے، ۴- اہل علم کا اس سلسلے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ جب آدمی کے پاس غیر مسلم غلام ہوں تو وہ ان کا صدقہ فطر ادا نہیں کرے گا۔ یہی مالک، شافعی اور احمد کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ غلاموں کا صدقہ فطر ادا کرے گا خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں، یہ ثوری، ابن مبارک اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 8321) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں لفظ «فَرضَ» استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے «فَرضَ» کو «قَدَّرَ» کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں «من المسلمين» کی قید اتفاقی ہے۔