(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن الطفيل، عن شريك، عن ابي حمزة، عن عامر الشعبي، عن فاطمة بنت قيس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن في المال حقا سوى الزكاة ". قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده ليس بذاك، وابو حمزة ميمون الاعور يضعف، وروى بيان، وإسماعيل بن سالم، عن الشعبي هذا الحديث قوله وهذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَيْلِ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِذَاكَ، وَأَبُو حَمْزَةَ مَيْمُونٌ الْأَعْوَرُ يُضَعَّفُ، وَرَوَى بَيَانٌ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ قَوْلَهُ وَهَذَا أَصَحُّ.
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند کوئی خاص نہیں ہے ۱؎، ۲- ابوحمزہ میمون الاعور کو ضعیف گردانا جاتا ہے، ۳- بیان اور اسماعیل بن سالم نے یہ حدیث شعبی سے روایت کی ہے اور اسے شعبی ہی کا قول قرار دیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: «إسناده ليس بذلك» الفاظ جرح میں سے ہے، اس کا تعلق مراتب جرح کے پہلے مرتبہ سے ہے، جو سب سے ہلکا مرتبہ ہے، ایسے راوی کی حدیث قابل اعتبار ہوتی ہے یعنی تقویت کے قابل اور اس کے لیے مزید روایات تلاش کی جا سکتی ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف أيضا //، المشكاة (1 / 597)، ضعيف سنن ابن ماجة (397) //
قال الشيخ زبير على زئي: (659،660) إسناده ضعيف / جه 1789 أبوحمزة ميمون الأعور: ضعيف (تق:7057)
فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے ۱؎“ پھر آپ نے سورۃ البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «ليس البر أن تولوا وجوهكم»”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو“۲؎ الآیۃ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزکاة 3 (1789)، (لکن لفظہ ”لیس فی المال حق سوی الزکاة“)، سنن الدارمی/الزکاة 13 (1677) (ضعیف) (سند میں شریک القاضی حافظہ کے ضعیف راوی ہے، ابو حمزہ میمون بھی ضعیف ہیں، اور ابن ماجہ کے یہاں اسود بن عامر کی جگہ یحییٰ بن آدم ہیں لیکن ان کی روایت شریک کے دیگر تلامذہ کے برخلاف ہے، دونوں سیاق سے یہ ضعیف ہے)»
وضاحت: ۱؎: بظاہر یہ حدیث «ليس في المال حق سوى الزكاة» کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ زکاۃ اللہ کا حق ہے اور مال میں زکاۃ کے علاوہ جو دوسرے حقوق واجبہ ہیں ان کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہے۔
۲؎: پوری آیت اس طرح ہے: «ليس البر أن تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملآئكة والكتاب والنبيين وآتى المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسآئلين وفي الرقاب وأقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في البأساء والضراء وحين البأس أولئك الذين صدقوا وأولئك هم المتقون»(البقرة: 177)”ساری اچھائی مشرق و مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقۃً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والے کو دے غلاموں کو آزاد کرنے نماز کی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے تنگدستی دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں“ آیت سے استدلال اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت میں مذکورہ وجوہ میں مال دینے کا ذکر فرمایا ہے پھر اس کے بعد نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1789)
قال الشيخ زبير على زئي: (659،660) إسناده ضعيف / جه 1789 أبوحمزة ميمون الأعور: ضعيف (تق:7057)