(مرفوع) حدثنا زياد بن ايوب البغدادي، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن في الجمعة ساعة لا يسال الله العبد فيها شيئا إلا آتاه الله إياه " قالوا: يا رسول الله اية ساعة هي؟ قال: " حين تقام الصلاة إلى الانصراف منها " قال: وفي الباب عن ابي موسى , وابي ذر , وسلمان , وعبد الله بن سلام , وابي لبابة , وسعد بن عبادة , وابي امامة، قال ابو عيسى: حديث عمرو بن عوف حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ؟ قَالَ: " حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَى الِانْصِرَافِ مِنْهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى , وَأَبِي ذَرٍّ , وَسَلْمَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ , وَأَبِي لُبَابَةَ , وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عمرو بن عوف مزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اس میں مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی گھڑی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نماز (جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس سے پلٹنے یعنی نماز ختم ہونے تک ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن عوف کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ، ابوذر، سلمان، عبداللہ بن سلام، ابولبابہ، سعد بن عبادہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 99 (1138) (تحفة الأشراف: 10773) (ضعیف جداً) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: قبولیت دعا کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑا اس حدیث میں ضعیف ہے، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (1138) // ضعيف سنن ابن ماجة (235)، ضعيف الجامع الصغير (1890) //
قال الشيخ زبير على زئي: (490) إسناده ضعيف جدًا /جه 1138 كثير بن عبدالله العوفي: ضعيف أفرط من نسبه إلى الكذب (تق: 5617) وھو متروك (انظر التحرير 193/3) وقال الھيشمي: وقد ضعفه الجمھور (مجمع الزوئد 130/6) وقال الحافظ ابن الحجر: ضعيف عند الاكثر (فتع الباري 451/4،19/5،280/7) قلت:وحديث مسلم (853)يغني عنه
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن الصباح الهاشمي البصري العطار، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي، حدثنا محمد بن ابي حميد، حدثنا موسى بن وردان، عن انس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " التمسوا الساعة التي ترجى في يوم الجمعة بعد العصر إلى غيبوبة الشمس ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، ومحمد بن ابي حميد يضعف ضعفه بعض اهل العلم من قبل حفظه، ويقال له: حماد بن ابي حميد، ويقال: هو ابو إبراهيم الانصاري وهو منكر الحديث، وراى بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الساعة التي ترجى فيها بعد العصر إلى ان تغرب الشمس، وبه يقول: احمد , وإسحاق، وقال احمد: اكثر الاحاديث في الساعة التي ترجى فيها إجابة الدعوة انها بعد صلاة العصر وترجى بعد زوال الشمس.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَيُقَالُ لَهُ: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ: هُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث انس رضی الله عنہ سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۳- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اور یہ منکرالحدیث ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید کی جاتی ہے عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں: اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1619) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا)»
وضاحت: ۱؎: اس بابت متعدد روایات ہیں، دیکھئیے اگلی حدیثیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1360)، التعليق الرغيب (1 / 251)