(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن السائب بن يزيد، عن المطلب بن ابي وداعة السهمي، عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: " ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبحته قاعدا حتى كان قبل وفاته بعام، فإنه كان يصلي في سبحته قاعدا، ويقرا بالسورة ويرتلها حتى تكون اطول من اطول منها ". وفي الباب عن ام سلمة، وانس بن مالك قال ابو عيسى: حديث حفصة حديث حسن صحيح، وقد روي عن نبي صلى الله عليه وسلم، انه كان " يصلي من الليل جالسا، فإذا بقي من قراءته قدر ثلاثين او اربعين آية قام فقرا، ثم ركع ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك "، وروي عنه انه كان " يصلي قاعدا، فإذا قرا وهو قائم، ركع وسجد وهو قائم، وإذا قرا وهو قاعد، ركع وسجد وهو قاعد ". قال احمد , وإسحاق: والعمل على كلا الحديثين كانهما رايا كلا الحديثين صحيحا معمولا بهما.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا، وَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ وَيُرَتِّلُهَا حَتَّى تَكُونَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَفْصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ جَالِسًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ "، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي قَاعِدًا، فَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ، رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَائِمٌ، وَإِذَا قَرَأَ وَهُوَ قَاعِدٌ، رَكَعَ وَسَجَدَ وَهُوَ قَاعِدٌ ". قَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق: وَالْعَمَلُ عَلَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ كَأَنَّهُمَا رَأَيَا كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحًا مَعْمُولًا بِهِمَا.
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نفل نماز پڑھتے نہیں دیکھا، یہاں تک کہ جب وفات میں ایک سال رہ گیا تو آپ بیٹھ کر نفلی نماز پڑھنے لگے۔ اور سورت پڑھتے تو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ لمبی سے لمبی ہو جاتی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حفصہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ام سلمہ اور انس بن مالک رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہے، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ رات کو بیٹھ کر نماز پڑھتے اور جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہو جاتے اور قرأت کرتے پھر رکوع میں جاتے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ اور جب کھڑے ہو کر قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ قرأت کرتے تو رکوع اور سجدہ بھی بیٹھ ہی کر کرتے۔ ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ دونوں حدیثیں صحیح اور معمول بہ ہیں ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن ابي النضر، عن ابي سلمة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يصلي جالسا فيقرا وهو جالس، فإذا بقي من قراءته قدر ما يكون ثلاثين او اربعين آية، قام فقرا وهو قائم ثم ركع وسجد، ثم صنع في الركعة الثانية مثل ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ قَدْرُ مَا يَكُونُ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً، قَامَ فَقَرَأَ وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، ثُمَّ صَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھتے تو قرأت بھی بیٹھ ہی کر کرتے، پھر جب تیس یا چالیس آیتوں کے بقدر قرأت باقی رہ جاتی تو آپ کھڑے ہو جاتے اور انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر الصلاة 20 (1118، 1119)، والتہجد 16 (1148)، صحیح مسلم/المسافرین 16 (731)، سنن ابی داود/ الصلاة 179 (953، 954)، سنن النسائی/قیام اللیل 18 (1649)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 140 (1227)، (تحفة الأشراف: 17709)، موطا امام مالک/الجماعة 7 (23)، مسند احمد (6/17846، 231) (صحیح)»