سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
19. باب فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضى الله عنه
19. باب: عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3702
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو زرعة، حدثنا الحسن بن بشر، حدثنا الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن انس بن مالك، قال: لما امر رسول الله صلى الله عليه وسلم ببيعة الرضوان كان عثمان بن عفان رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، قال: فبايع الناس، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن عثمان في حاجة الله وحاجة رسوله "، فضرب بإحدى يديه على الاخرى، فكانت يد رسول الله صلى الله عليه وسلم لعثمان خيرا من ايديهم لانفسهم. قال: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا أُمِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَيْعَةِ الرِّضْوَانِ كَانَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ: فَبَايَعَ النَّاسَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عُثْمَانَ فِي حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِهِ "، فَضَرَبَ بِإِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى، فَكَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُثْمَانَ خَيْرًا مِنْ أَيْدِيهِمْ لِأَنْفُسِهِمْ. قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیعت رضوان ۱؎ کا حکم دیا گیا تو عثمان بن عفان رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کر اہل مکہ کے پاس گئے ہوئے تھے، جب آپ نے لوگوں سے بیعت لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر مارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ جسے آپ نے عثمان کے لیے استعمال کیا لوگوں کے ہاتھوں سے بہتر تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1155) (ضعیف) (سند میں حکم بن عبد الملک ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: بیعت رضوان وہ بیعت ہے جو صلح حدیبیہ کے سال ایک درخت کے نیچے لی گئی تھی، یہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ خبر اڑ گئی کہ کفار مکہ نے عثمان کو قتل کر دیا ہے، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے بیعت لی کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینا ہے، اس پر سب لوگوں سے بیعت لی گئی کہ کفار مکہ سے اس پر جنگ کی جائے گی، سب لوگ اس عہد پر جمے رہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6065)

قال الشيخ زبير على زئي: (3702) إسناده ضعيف
الحكم بن عبدالملك: ضعيف (تق:1451) وحديث أبى داود (2726) يغني عنه
حدیث نمبر: 3145
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا سليمان بن داود، عن شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، ولم يذكر عن ابن عباس، وهشيم، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 قال: نزلت بمكة، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع صوته بالقرآن سبه المشركون، ومن انزله ومن جاء به، فانزل الله ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 فيسبوا القرآن ومن انزله ومن جاء به ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك بان تسمعهم حتى ياخذوا عنك القرآن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 قَالَ: نَزَلَتْ بِمَكَّةَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِكُونَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك» اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں (بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الإسراء 14 (4722)، والتوحید 134 (7490)، و 44 (7525)، و 52 (7547)، صحیح مسلم/الصلاة 31 (446)، سنن النسائی/الإفتتاح 80 (1012) (تحفة الأشراف: 5451)، و مسند احمد (1/23، 215) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3706
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا صالح بن عبد الله، حدثنا ابو عوانة، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، ان رجلا من اهل مصر حج البيت فراى قوما جلوسا فقال: من هؤلاء؟ قالوا: قريش، قال: فمن هذا الشيخ؟ قالوا: ابن عمر، فاتاه , فقال: إني سائلك عن شيء فحدثني انشدك الله بحرمة هذا البيت، اتعلم ان عثمان فر يوم احد؟ قال: نعم، قال: اتعلم انه تغيب عن بيعة الرضوان فلم يشهدها؟ قال: نعم، قال: اتعلم انه تغيب يوم بدر فلم يشهد؟ قال: نعم، قال: الله اكبر، فقال له ابن عمر: تعال ابين لك ما سالت عنه، اما فراره يوم احد فاشهد ان الله قد عفا عنه وغفر له، واما تغيبه يوم بدر فإنه كانت عنده , او تحته ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لك اجر رجل شهد بدرا وسهمه " , وامره ان يخلف عليها وكانت عليلة، واما تغيبه عن بيعة الرضوان فلو كان احد اعز ببطن مكة من عثمان لبعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم مكان عثمان، بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان إلى مكة وكانت بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى مكة، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده اليمنى: " هذه يد عثمان " , وضرب بها على يده، فقال: " هذه لعثمان , قال له: " اذهب بهذا الآن معك ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالُوا: قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنْ هَذَا الشَّيْخُ؟ قَالُوا: ابْنُ عُمَرَ، فَأَتَاهُ , فَقَالَ: إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ فَحَدِّثْنِي أَنْشُدُكَ اللَّهَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَ عَنْهُ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَهُ , أَوْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ " , وَأَمَرَهُ أَنْ يَخْلُفَ عَلَيْهَا وَكَانَتْ عَلِيلَةً، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانَ عُثْمَانَ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ إِلَى مَكَّةَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: " هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ " , وَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ، فَقَالَ: " هَذِهِ لِعُثْمَانَ , قَالَ لَهُ: " اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہیں تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر میں موجود نہیں تھے، تمہارے انہوں نے کہا: ہاں، اس مصری نے ازراہ تعجب اللہ اکبر کہا ۱؎، اس پر ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: آؤ میں تیرے سوالوں کو تم پر واضح کر دوں: رہا ان (عثمان) کا احد کے دن بھاگنا ۲؎ تو تو گواہ رہ کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا اور بخش دیا ہے ۳؎ اور رہی بدر کے دن، ان کی غیر حاضری تو ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: تمہیں اس آدمی کے برابر ثواب اور اس کے برابر مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا، جو بدر میں حاضر ہو گا، اور رہی ان کی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عثمان سے بڑھ کر وادی مکہ میں کوئی باعزت ہوتا تو عثمان رضی الله عنہ کی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان کو مکہ بھیجا اور بیعت رضوان عثمان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اور اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: یہ عثمان کی طرف سے بیعت ہے، تو ابن عمر رضی الله عنہما نے اس سے کہا: اب یہ جواب تو اپنے ساتھ لیتا جا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الخمس 14 (3130) (بعضہ) وفضائل الصحابة 7 (3698)، والمغازي 19 (4066) (تحفة الأشراف: 7319) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی الله عنہ سے بغض رکھتا تھا، اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبر کہا، یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تو لوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔
۲؎: یہ اشارہ ہے غزوہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے، ان میں عثمان رضی الله عنہ بھی تھے۔
۳؎: اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی «ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم» (سورة آل عمران: 155) پوری آیت اس طرح ہے «إن الذين تولوا منكم يوم التقى الجمعان إنما استزلهم الشيطان ببعض ما كسبوا ولقد عفا الله عنهم إن الله غفور حليم» یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی، یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے، لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اور تحمل والا (آل عمران: 155)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.