(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " رايت كاني اتيت بقدح من لبن , فشربت منه , فاعطيت فضلي عمر بن الخطاب "، قالوا: فما اولته يا رسول الله؟ قال: " العلم ". قال: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأَيْتُ كَأَنِّي أُتِيتُ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ , فَشَرِبْتُ مِنْهُ , فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " الْعِلْمَ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خواب میں دیکھا گویا مجھے دودھ کا کوئی پیالہ دیا گیا جس میں سے میں نے کچھ پیا پھر میں نے اپنا بچا ہوا حصہ عمر بن خطاب کو دے دیا“، تو لوگ کہنے لگے اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ آپ نے فرمایا: ”اس کی تعبیر علم ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2284 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی: میرے بعد دین کا علم عمر کو ہے (رضی الله عنہ) اس میں ابوبکر رضی الله عنہ کی من جملہ فضیلت کی نفی نہیں ہے صرف علم کے سلسلے میں ان کا علم بڑھا ہوا ثابت ہوتا ہے، بقیہ فضائل کے لحاظ سے سب سے افضل امتی (بعد از نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) ابوبکر ہی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " بينما انا نائم إذ اتيت بقدح لبن، فشربت منه ثم اعطيت فضلي عمر بن الخطاب، قالوا: فما اولته يا رسول الله؟ قال: العلم "، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابي بكرة، وابن عباس، وعبد الله بن سلام، وخزيمة، والطفيل بن سخبرة، وابي امامة، وجابر، قال: حديث ابن عمر حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: الْعِلْمَ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي بَكْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَخُزَيْمَةَ، وَالطُّفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَجَابِرٍ، قَالَ: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا پھر اپنا جوٹھا عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟“ فرمایا: ”علم سے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابوبکرہ، ابن عباس، عبداللہ بن سلام، خزیمہ، طفیل بن سخبرہ، ابوامامہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 22 (82)، وفضائل الصحابة 6 (3681)، والتعبیر 15 (7006)، و 16 (7007)، و 34 (7027)، و 37 (7032)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 2 (2391)، ویأتي عند المؤلف في المناقب 18 (3687) (تحفة الأشراف: 6700) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: علم سے اس کی تعبیر بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دودھ میں بکثرت فائدے ہیں اور رب العالمین اسے گوبر اور خون کے درمیان سے نکالتا ہے اسی طرح علم کے فوائد بے انتہا ہیں، اسے بھی رب العالمین شک اور جہالت کے درمیان سے نکالتا ہے پھر اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس سے نوازتا ہے۔