(مرفوع) حدثنا قتيبة، وهناد، قالا: حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن موسى بن طلحة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا وضع احدكم بين يديه مثل مؤخرة الرحل فليصل ولا يبالي من مر وراء ذلك ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة , وسهل بن ابي حثمة , وابن عمر , وسبرة بن معبد الجهني , وابي جحيفة، وعائشة، قال ابو عيسى: حديث طلحة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقالوا: سترة الإمام سترة لمن خلفه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤَخَّرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِي مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ , وَابْنِ عُمَرَ , وَسَبْرَةَ بْنِ مَعْبَدٍ الْجُهَنِيِّ , وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَعَائِشَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ طَلْحَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: سُتْرَةُ الْإِمَامِ سُتْرَةٌ لِمَنْ خَلْفَهُ.
طلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سے کوئی اپنے آگے کجاوے کی پچھلی لکڑی کی مانند کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھے اور اس کی پرواہ نہ کرے کہ اس کے آگے سے کون گزرا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- طلحہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، سہل بن ابی حثمہ، ابن عمر، سبرہ بن معبد جہنی، ابوجحیفہ اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 47 (499)، سنن ابی داود/ الصلاة 102 (685)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 36 (940)، (تحفة الأشراف: 5011)، مسند احمد (1/161، 162) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سترہ ایسی چیز ہے جسے نمازی اپنے آگے نصب کرے یا کھڑا کرے، خواہ وہ دیوار ہو یاس تون، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ تاکہ یہ گزرنے والے اور نمازی کے درمیان آڑ رہے، اس کی سخت تاکید ہے، نیز میدان یا مسجد میں اس سلسلے میں کوئی فرق نہیں ہے، اور خانہ کعبہ میں سترہ کے آگے سے گزرنے والی حدیثیں ضعیف ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يونس بن عبيد، ومنصور بن زاذان، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال: سمعت ابا ذر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل او كواسطة الرحل، قطع صلاته الكلب الاسود والمراة والحمار " فقلت لابي ذر: ما بال الاسود من الاحمر من الابيض؟ فقال: يا ابن اخي سالتني كما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الكلب الاسود شيطان " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , والحكم بن عمرو الغفاري , وابي هريرة , وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إليه، قالوا: يقطع الصلاة الحمار والمراة والكلب الاسود، قال احمد: الذي لا اشك فيه ان الكلب الاسود يقطع الصلاة، وفي نفسي من الحمار والمراة شيء، قال إسحاق: لا يقطعها شيء إلا الكلب الاسود.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَلَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ أَوْ كَوَاسِطَةِ الرَّحْلِ، قَطَعَ صَلَاتَهُ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ " فَقُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتَنِي كَمَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَيْهِ، قَالُوا: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، قَالَ أَحْمَدُ: الَّذِي لَا أَشُكُّ فِيهِ أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ، وَفِي نَفْسِي مِنَ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ شَيْءٌ، قَالَ إِسْحَاق: لَا يَقْطَعُهَا شَيْءٌ إِلَّا الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا: کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہو جائے گی“۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری، حکم بن عمرو بن غفاری، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا نماز باطل کر دیتا ہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز نماز باطل نہیں کرتی۔
وضاحت: ۱؎: یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے، سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں، بعض علماء بالکل باطل ہو جانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے مصلے کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کی از حد خیال کرنا چاہیئے۔