(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا وكيع، عن موسى بن عبيدة، عن يزيد بن ابان، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من مؤمن إلا وله بابان باب يصعد منه عمله، وباب ينزل منه رزقه، فإذا مات بكيا عليه فذلك قوله عز وجل: فما بكت عليهم السماء والارض وما كانوا منظرين سورة الدخان آية 29. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من هذا الوجه، وموسى بن عبيدة، ويزيد بن ابان الرقاشي يضعفان في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَلَهُ بَابَانِ بَابٌ يَصْعَدُ مِنْهُ عَمَلُهُ، وَبَابٌ يَنْزِلُ مِنْهُ رِزْقُهُ، فَإِذَا مَاتَ بَكَيَا عَلَيْهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ سورة الدخان آية 29. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مومن کے لیے دو دروازے ہیں، ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کے نیک عمل چڑھتے ہیں اور ایک دروازہ وہ ہے جس سے اس کی روزی اترتی ہے، جب وہ مر جاتا ہے تو یہ دونوں اس پر روتے ہیں، یہی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: «فما بكت عليهم السماء والأرض وما كانوا منظرين»”(کفار و مشرکین) پر زمین و آسمان کوئی بھی نہ رویا اور انہیں کسی بھی طرح کی مہلت نہ دی گئی“(الدخان: ۲۹)، کا مطلب“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- موسیٰ بن عبیدہ اور یزید بن ابان رقاشی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1675) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابان رقاشی ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4491) // ضعيف الجامع الصغير (5214) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3255) إسناده ضعيف يزيد بن أبان وموسي بن عبيدة: ضعيفان (تقدم:1398،1122)
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن بشر العبدي، ويعلى بن عبيد، عن حجاج بن دينار، عن ابي غالب، عن ابي امامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه إلا اوتوا الجدل "، ثم تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الآية " ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون سورة الزخرف آية 58 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح إنما نعرفه من حديث حجاج بن دينار، وحجاج ثقة مقارب الحديث، وابو غالب اسمه حزور.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ، وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ "، ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الْآيَةَ " مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ حَجَّاجِ بْنِ دِينَارٍ، وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَأَبُو غَالِبٍ اسْمُهُ حَزَوَّرُ.
ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی قوم ہدایت پانے کے بعد جب گمراہ ہو جاتی ہے تو جھگڑا لو اور مناظرہ باز ہو جاتی ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی «ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون»”یہ لوگ تیرے سامنے صرف جھگڑے کے طور پر کہتے ہیں بلکہ یہ لوگ طبعاً جھگڑالو ہیں“(الزخرف: ۵۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف حجاج بن دینار کی روایت سے جانتے ہیں، حجاج ثقہ، مقارب الحدیث ہیں اور ابوغالب کا نام حزور ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الملك بن إبراهيم الجدي، حدثنا شعبة، عن الاعمش، ومنصور، سمعا ابا الضحى يحدث، عن مسروق، قال: جاء رجل إلى عبد الله، فقال: إن قاصا يقص، يقول: إنه يخرج من الارض الدخان فياخذ بمسامع الكفار، وياخذ المؤمن كهيئة الزكام، قال: فغضب وكان متكئا فجلس، ثم قال: إذا سئل احدكم عما يعلم فليقل به، قال منصور: فليخبر به، وإذا سئل عما لا يعلم فليقل الله اعلم، فإن من علم الرجل إذا سئل عما لا يعلم ان يقول: الله اعلم، فإن الله تعالى قال لنبيه: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما راى قريشا استعصوا عليه، قال: " اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف "، فاخذتهم سنة، فاحصت كل شيء حتى اكلوا الجلود والميتة وقال احدهما: العظام، قال: وجعل يخرج من الارض كهيئة الدخان، قال: فاتاه ابو سفيان، قال: إن قومك قد هلكوا فادع الله لهم، قال: فهذا لقوله: يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11، قال منصور: هذا لقوله:ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون سورة الدخان آية 12، فهل يكشف عذاب الآخرة، قال: مضى البطشة واللزام والدخان، وقال احدهما: القمر، وقال الآخر: الروم ". قال ابو عيسى: واللزام يعني يوم بدر، قال: وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْجُدِّيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَمَنْصُورٍ، سَمِعَا أَبَا الضُّحَى يُحَدِّثُ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنَّ قَاصًّا يَقُصُّ، يَقُولُ: إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ الدُّخَانُ فَيَأْخُذُ بِمَسَامِعِ الْكُفَّارِ، وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، قَالَ: فَغَضِبَ وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا سُئِلَ أَحَدُكُمْ عَمَّا يَعْلَمُ فَلْيَقُلْ بِهِ، قَالَ مَنْصُورٌ: فَلْيُخْبِرْ بِهِ، وَإِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ إِذَا سُئِلَ عَمَّا لَا يَعْلَمُ أَنْ يَقُولَ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ لِنَبِيِّهِ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ "، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، فَأَحْصَتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَقَالَ أَحَدُهُمَا: الْعِظَامَ، قَالَ: وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، قَالَ: فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، قَالَ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ: فَهَذَا لِقَوْلِهِ: يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ مَنْصُورٌ: هَذَا لِقَوْلِهِ:رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، فَهَلْ يُكْشَفُ عَذَابُ الْآخِرَةِ، قًالَ: مَضَى الْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَالدُّخَانُ، وَقَالَ أَحَدُهُمَا: الْقَمَرُ، وَقَالَ الْآخَرُ: الروم ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاللِّزَامُ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ، قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم»”اللہ بہتر جانتا ہے“ کہنا چاہیئے، کیونکہ یہ آدمی کے علم و جانکاری ہی کی بات ہے کہ جب اس سے کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو وہ کہہ دے «اللہ اعلم»”اللہ بہتر جانتا ہے“، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين»”کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں“(ص: ۸۶)، (بات اس دخان کی یہ ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو دیکھا کہ وہ نافرمانی ہی کیے جا رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! یوسف علیہ السلام کے سات سالہ قحط کی طرح ان پر سات سالہ قحط بھیج کر ہماری مدد کر“(آپ کی دعا قبول ہو گئی)، ان پر قحط پڑ گیا، ہر چیز اس سے متاثر ہو گئی، لوگ چمڑے اور مردار کھانے لگے (اس حدیث کے دونوں راویوں اعمش و منصور میں سے ایک نے کہا ہڈیاں بھی کھانے لگے)، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: دھواں جیسی چیز زمین سے نکلنے لگی، تو ابوسفیان نے آپ کے پاس آ کر کہا: آپ کی قوم ہلاک و برباد ہو گئی، آپ ان کی خاطر اللہ سے دعا فرما دیجئیے عبداللہ نے کہا: یہی مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم»”جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے“(الدخان: ۱۰)، کا، منصور کہتے ہیں: یہی مفہوم ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون»”اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں“(الدخان: ۱۲)، کا، تو کیا آخرت کا عذاب ٹالا جا سکے گا؟۔ عبداللہ کہتے ہیں: «بطشہ»، «لزام»(بدر) اور دخان کا ذکرو زمانہ گزر گیا اعمش اور منصور دونوں راویوں میں سے، ایک نے کہا: «قمر»(چاند) کا شق ہونا گزر گیا، اور دوسرے نے کہا: روم کے مغلوب ہونے کا واقعہ بھی پیش آ چکا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «لزام» سے مراد یوم بدر ہے۔