(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا داود بن الزبرقان، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: لو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا من الوحي لكتم هذه الآية: " وإذ تقول للذي انعم الله عليه يعني بالإسلام وانعمت عليه يعني بالعتق فاعتقته امسك عليك زوجك واتق الله وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس والله احق ان تخشاه إلى قوله وكان امر الله مفعولا سورة الاحزاب آية 37، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما تزوجها، قالوا: تزوج حليلة ابنه فانزل الله تعالى: ما كان محمد ابا احد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين سورة الاحزاب آية 40، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم تبناه وهو صغير، فلبث حتى صار رجلا يقال له: زيد بن محمد فانزل الله: ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم سورة الاحزاب آية 5 فلان مولى فلان وفلان اخو فلان هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5 يعني اعدل عند الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، قد روي عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت: " لو كان النبي صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا من الوحي لكتم هذه الآية: وإذ تقول للذي انعم الله عليه وانعمت عليه سورة الاحزاب آية 37 " هذا الحرف لم يرو بطوله، حدثنا بذلك عبد الله بن وضاح الكوفي، حدثنا عبد الله بن إدريس، عن داود بن ابي هند.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ الزِّبْرِقَانِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: " وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْإِسْلَامِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ يَعْنِي بِالْعِتْقِ فَأَعْتَقْتَهُ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاهُ إِلَى قَوْلِهِ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولا سورة الأحزاب آية 37، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا تَزَوَّجَهَا، قَالُوا: تَزَوَّجَ حَلِيلَةَ ابْنِهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ سورة الأحزاب آية 40، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ، فَلَبِثَ حَتَّى صَارَ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: زَيْدُ بْنُ مُحَمَّدٍ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ سورة الأحزاب آية 5 فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانٍ وَفُلَانٌ أَخُو فُلَانٍ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 يَعْنِي أَعْدَلُ عِنْدَ اللهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَدْ رُوِيَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " لَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 37 " هَذَا الْحَرْفُ لَمْ يُرْوَ بِطُولِهِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَضَّاحٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه»”جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اسلام کے ذریعہ انعام کیے تھے اور آپ نے بھی (اسے آزاد کر کے) اس پر انعام و احسان کیے تھے کہہ رہے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو، اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا تم لوگوں کے (لعن طعن) سے ڈرتے تھے اور اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ تم اس سے ڈرو“، سے لے کر «وكان أمر الله مفعولا» تک چھپا لیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے (زینب سے) شادی کر لی تو لوگوں نے کہا: آپ نے اپنے (لے پالک) بیٹے کی بیوی سے شادی کر لی، اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان محمد أبا أحد من رجالكم ولكن رسول الله وخاتم النبيين»”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم لوگوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین (آخری نبی) ہیں“، نازل فرمائی، زید چھوٹے تھے تبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، وہ برابر آپ کے پاس رہے یہاں تک کہ جوان ہو گئے، اور ان کو زید بن محمد کہا جانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم في الدين ومواليكم»”انہیں ان کے (اصلی باپ کی طرف) منسوب کر کے پکارو (جن کے نطفے سے وہ پیدا ہوئے ہیں) یہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف بات ہے، لیکن اگر تم ان کے باپوں کو نہ جانتے ہو (کہ وہ کون ہیں) تو وہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں“، فلاں فلاں کا دوست ہے اور فلاں فلاں کا دینی بھائی ہے ۴؎، «هو أقسط عند الله» یہ اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف پر مبنی کا مفہوم یہ ہے کہ پورا انصاف ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔ اس سند سے مسروق نے عائشہ سے روایت کی ہے، وہ کہتی ہیں: اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو آپ یہ آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه» چھپاتے، (اس روایت میں) یہ حدیث کی پوری روایت نہیں کی گئی ہے ۵؎۔
وضاحت: ۴؎: اگر وہ آزاد ہوں تو ترجمہ ہو گا ”فلاں فلاں کے دوست، حلیف“ اور اگر آزاد کردہ غلام ہوں تو ترجمہ ہو گا ”فلاں فلاں کا آزاد کردہ غلام“ یہی بات «موالیکم» کے ترجمہ میں بھی ملحوظ رہے۔
۵؎: یعنی: اس حدیث کی دو سندوں میں شعبی کے بعد ”مسروق“ کا اضافہ ہے، اور یہی سندیں متصل ہیں (یہ آگے آ رہی ہیں) پہلی سند میں انقطاع ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: (3207) إسناده ضعيف جدًا داود بن الزبرقان: متروك وكذبه الأزدي (تق:1785) والحديث الاتي (الأصل:3208) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابان، حدثنا ابن ابي عدي، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: " لو كان النبي صلى الله عليه وسلم كاتما شيئا من الوحي لكتم هذه الآية: وإذ تقول للذي انعم الله عليه وانعمت عليه سورة الاحزاب آية 37 " الآية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَاتِمًا شَيْئًا مِنَ الْوَحْيِ لَكَتَمَ هَذِهِ الْآيَةَ: وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ سورة الأحزاب آية 37 " الْآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی میں سے کوئی چیز چھپا لینے والے ہوتے تو آیت «وإذ تقول للذي أنعم الله عليه وأنعمت عليه» کو چھپاتے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، قال: لما نزلت هذه الآية: وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 في شان زينب بنت جحش جاء زيد يشكو، فهم بطلاقها، فاستامر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " امسك عليك زوجك واتق الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ سورة الأحزاب آية 37 فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو، فَهَمَّ بِطَلَاقِهَا، فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس»”تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو“(الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: «أمسك عليك زوجك واتق الله»”اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الاحزاب: ۳۷)“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اور خود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کر رہا ہے، وہ یہ تھی کہ: اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی، تب لوگ کہیں گے: لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے، اسی طرح لے پالک سے، دیگر خونی معاملات میں حرمت و حلت کی بات صحیح نہیں ہے۔