عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خانہ کعبہ کا نام «بيت العتيق»۱؎(آزاد گھر) اس لیے رکھا گیا کہ اس پر کسی جابر و ظالم کا غلبہ و قبضہ نہیں ہو سکا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث زہری کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل طریقہ سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5284) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن صالح حافظہ کے ضعیف ہیں، اور ان کے مخالف ان سے ثقہ رواة نے اس کو عبد اللہ بن زبیر کا اپنا قول بتایا ہے، دیکھیے اگلی سند)»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو اسامة، وابن نمير، ووكيع، عن عبد العزيز بن عمر بن عبد العزيز، عن عبد الله بن موهب، وقال بعضهم: عن عبد الله بن وهب، عن تميم الداري، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم ما السنة في الرجل من اهل الشرك يسلم على يدي رجل من المسلمين؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " هو اولى الناس بمحياه ومماته "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه، إلا من حديث عبد الله بن وهب، ويقال: ابن موهب، عن تميم الداري، وقد ادخل بعضهم بين عبد الله بن وهب، وبين تميم الداري قبيصة بن ذؤيب ولا يصح، رواه يحيى بن حمزة، عن عبد العزيز بن عمر، وزاد فيه قبيصة بن ذؤيب وهو عندي ليس بمتصل، والعمل على هذا الحديث، عند بعض اهل العلم، وقال بعضهم: يجعل ميراثه في بيت المال، وهو قول الشافعي، واحتج بحديث النبي صلى الله عليه وسلم " ان الولاء لمن اعتق ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، وَابْنُ نُمَيْرٍ، ووكيع، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا السُّنَّةُ فِي الرَّجُلِ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ يُسْلِمُ عَلَى يَدَيْ رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هُوَ أَوْلَى النَّاسِ بِمَحْيَاهُ وَمَمَاتِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، وَيُقَالُ: ابْنُ مَوْهِبٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَقَدْ أَدْخَلَ بَعْضُهُمْ بَيْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ، وَبَيْنَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ وَلَا يَصِحُّ، رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عُمَرَ، وَزَادَ فِيهِ قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ وَهُوَ عِنْدِي لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ، عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يُجْعَلُ مِيرَاثُهُ فِي بَيْتِ الْمَالِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَاحْتَجَّ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ ".
تمیم داری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اس مشرک کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے جو کسی مسلمان کے ہاتھ پر اسلام لائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (مسلمان) اس (نو مسلم) کی زندگی اور موت کا میں تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف عبداللہ بن وہب کی روایت سے جانتے ہیں، ان کو ابن موہب بھی کہا جاتا ہے، یہ تمیم داری سے روایت کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے عبداللہ بن وہب اور تمیم داری کے درمیان قبیصہ بن ذویب کو داخل کیا ہے جو صحیح نہیں، یحییٰ بن حمزہ نے عبدالعزیز بن عمر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی سند میں قبیصہ بن ذویب کا اضافہ کیا ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے نزدیک اس کی سند متصل نہیں ہے، ۳- بعض لوگوں نے کہا ہے: اس کی میراث بیت المال میں رکھی جائے گی، شافعی کا یہی قول ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (اس) حدیث سے استدلال کیا ہے «أن الولاء لمن أعتق»”حق ولاء (میراث) اس شخص کو حاصل ہے جو آزاد کرے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 22 (تعلیقات في ترجمة الباب) سنن ابی داود/ الفرائض 13 (2918)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 18 (2752) (تحفة الأشراف: 2052)، و مسند احمد (4/102، 103)، وسنن الدارمی/الفرائض 34 (2076) (حسن صحیح)»