(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة وهو يتوكا على عسيب فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم: لو سالتموه، فقال بعضهم: لا تسالوه فإنه يسمعكم ما تكرهون، فقالوا له: يا ابا القاسم، حدثنا عن الروح، فقام النبي صلى الله عليه وسلم ساعة ورفع راسه إلى السماء، فعرفت انه يوحى إليه، حتى صعد الوحي، ثم قال: " الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ فَإِنَّهُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، حَدِّثْنَا عَنِ الرُّوحِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: " الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لے لیا کرتے تھے، پھر آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا: کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا (مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر) آپ کچھ دیر (خاموش) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آ ہی گئی، پھر آپ نے فرمایا: «الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، عن داود بن ابي هند، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " قالت قريش ليهود: اعطونا شيئا نسال هذا الرجل، فقال: سلوه عن الروح، قال: فسالوه عن الروح، فانزل الله تعالى: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85، قالوا: اوتينا علما كثيرا، اوتينا التوراة ومن اوتي التوراة فقد اوتي خيرا كثيرا، فانزلت: قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر سورة الكهف آية 109 إلى آخر الآية "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، قَالُوا: أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا، أُوتِينَا التَّوْرَاةُ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، فَأُنْزِلَتْ: قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ سورة الكهف آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھیں، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے؟) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“(بنی اسرائیل: ۸۵)، انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت «قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر»”کہہ دیجئیے: اگر میرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات و مقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائے (مگر میرے رب کی حمد و ثناء ختم نہ ہو)“(الکہف: ۱۰۹)، نازل ہوئی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔