(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة بن عبد الله، عن عبد الله بن مسعود، قال: لما كان يوم بدر وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ فذكر في الحديث قصة طويلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ينفلتن منهم احد إلا بفداء او ضرب عنق "، قال عبد الله بن مسعود: فقلت: يا رسول الله، إلا سهيل ابن بيضاء فإني قد سمعته يذكر الإسلام، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فما رايتني في يوم اخوف ان تقع علي حجارة من السماء مني في ذلك اليوم، قال: حتى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا سهيل بن بيضاء "، قال: ونزل القرآن بقول عمر: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض سورة الانفال آية 67 إلى آخر الآيات "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو عبيدة بن عبد الله لم يسمع من ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيءَ بِالْأَسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأَسَارَى؟ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ أَوْ ضَرْبِ عُنُقٍ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا سُهَيْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنَ السَّمَاءِ مِنِّي فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، قَالَ: حَتَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا سُهَيْلَ بْنَ بَيْضَاءِ "، قَالَ: وَنَزَلَ الْقُرْآنُ بِقَوْلِ عُمَرَ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى آخِرِ الْآيَاتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے، یا اس کی گردن اڑا دی جائے“۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، (مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تو میں نے اس دن اتنا خوف محسوس کیا کہ کہیں مجھ پر پتھر نہ برس پڑیں، اس سے زیادہ کسی دن بھی میں نے اپنے کو خوف زدہ نہ پایا ۱؎، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر“، اور عمر رضی الله عنہ کی تائید میں «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض»”کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور سزاوار نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ پورے طور پر خوں ریزی نہ کر لے“(الأنفال: ۶۷)، والی آیت آخر تک نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے سنا نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1714 (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: آپ کی خاموشی میرے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ کہیں میری بات آپ کو ناگوار نہ لگی ہو۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف مضى (1767) // (288 / 1783) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3084) إسناده ضعيف / تقدم: 1714
(مرفوع) حدثنا ابو عبيدة بن ابي السفر واسمه احمد بن عبد الله الهمداني الكوفي، ومحمود بن غيلان، قالا: حدثنا ابو داود الحفري، حدثنا يحيى بن زكرياء بن ابي زائدة، عن سفيان بن سعيد، عن هشام، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن جبرائيل هبط عليه، فقال له: خيرهم، يعني: اصحابك، في اسارى بدر، القتل او الفداء، على ان يقتل منهم قابلا مثلهم، قالوا: الفداء، ويقتل منا "، وفي الباب، عن ابن مسعود، وانس، وابي برزة، وجبير بن مطعم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث الثوري، لا نعرفه إلا من حديث ابن ابي زائدة، وروى ابو اسامة، عن هشام، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، وروى ابن عون، عن ابن سيرين، عن عبيدة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وابو داود الحفري اسمه عمر بن سعد.(مرفوع) حَدَّثَنَا أبو عُبَيْدَةَ بن أبي السَّفَرِ وَاسْمُهُ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ الْكُوفِيُّ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ جِبْرَائِيلَ هَبَطَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ: خَيِّرْهُمْ، يَعْنِي: أَصْحَابَكَ، فِي أُسَارَى بَدْرٍ، الْقَتْلَ أَوِ الْفِدَاءَ، عَلَى أَنْ يُقْتَلَ مِنْهُمْ قَابِلًا مِثْلُهُمْ، قَالُوا: الْفِدَاءَ، وَيُقْتَلُ مِنَّا "، وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، وَرَوَى أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَرَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَأَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ اسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل نے میرے پاس آ کر کہا: اپنے ساتھیوں کو بدر کے قیدیوں کے سلسلے میں اختیار دیں، وہ چاہیں تو انہیں قتل کریں، چاہیں تو فدیہ لیں، فدیہ کی صورت میں ان میں سے آئندہ سال اتنے ہی آدمی قتل کئے جائیں گے، ان لوگوں نے کہا: فدیہ لیں گے اور ہم میں سے قتل کئے جائیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ثوری کی روایت سے حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف ابن ابی زائدہ ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- ابواسامہ نے بسند «هشام عن ابن سيرين عن عبيدة عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- ابن عون نے بسند «ابن سيرين عن عبيدة عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرسلاً روایت کی ہے، ۴- اس باب میں ابن مسعود، انس، ابوبرزہ، اور جبیر بن مطعم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ صحابہ کی یہ دلی خواہش تھی کہ یہ قیدی مشرف بہ اسلام ہو جائیں اور مستقبل میں اپنی جان دے کر شہادت کا درجہ حاصل کر لیں (حدیث کی سند اور معنی دونوں پر کلام ہے؟)۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3973 / التحقيق الثاني)، الإرواء (5 / 48 - 49)
قال الشيخ زبير على زئي: (1567) إسناده ضعيف ھشام بن حسان عنعن (تقدم: 460) سفيان الثوري عنعن (تقدم:746)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، قال: لما كان يوم بدر، وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ "، فذكر قصة في هذا الحديث طويلة، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وابي ايوب، وانس، وابي هريرة، وهذا حديث حسن، وابو عبيدة لم يسمع من ابيه، ويروى عن ابي هريرة، قال: ما رايت احدا اكثر مشورة لاصحابه من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، وَجِيءَ بِالْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟ "، فَذَكَرَ قِصَّةً فِي هَذَا الْحَدِيثِ طَوِيلَةً، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَيُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ مَشُورَةً لِأَصْحَابِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کے دن قیدیوں کو لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو“، پھر راوی نے اس حدیث میں ایک طویل قصہ بیان کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ہے، ۳- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے ساتھیوں سے زیادہ مشورہ لیتا ہو ۲؎، ۴- اس حدیث میں عمر، ابوایوب، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وأعادہ في تفسیر الأنفال (3084)، (تحفة الأشراف: 9628) (ضعیف) (ابو عبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود رضی الله عنہ سے سماع نہیں ہے)»
وضاحت: ۱؎: قصہ (اختصار کے ساتھ) یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: بدر کے قیدیوں کی بابت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے مشورہ لیا، ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے تھی کہ ان کے ساتھ نرم دلی برتی جائے اور ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے، عمر رضی الله عنہ نے کہا: یہ آپ کی تکذیب کرنے والے لوگ ہیں، انہیں معاف کرنا صحیح نہیں ہے، بلکہ آپ حکم دیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے قریبی ساتھی کا سر قلم کرے، جب کہ بعض کی رائے تھی کہ سوکھی لکڑیوں کے انبار میں سب کو ڈال کر جلا دیا جائے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں سن کر خاموش رہے، اندر گئے پھر باہر آ کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ بعض دلوں کو دودھ کی طرح نرم کر دیتا ہے جب کہ بعض کو پتھر کی طرح سخت کر دیتا ہے“، ابوبکر رضی الله عنہ کی مثال ابراہیم و عیسیٰ سے دی، عمر رضی الله عنہ کی نوح سے اور عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کی موسیٰ علیہ السلام سے، پھر آپ نے ابوبکر رضی الله عنہ کی رائے پسند کی اور فدیہ لے کر سب کو چھوڑ دیا، دوسرے دن جب عمر رضی الله عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی الله عنہ کو روتا دیکھ کر عرض کیا، اللہ کے رسول! رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر مجھے معلوم ہو جاتا تو میں بھی شامل ہو جاتا، یا روہانسی صورت بنا لیتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کے قیدیوں سے فدیہ قبول کرنے کے سبب تمہارے ساتھیوں پر جو عذاب آنے والا تھا اور اس درخت سے قریب ہو گیا تھا اس کے سبب رو رہا ہوں، پھر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض»(الأنفال: ۶۷)۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں مشورہ کی کافی اہمیت ہے، اگر مسلمانوں کے سارے کام باہمی مشورہ سے انجام دیئے جائیں تو ان میں کافی خیر و برکت ہو گی، اور رب العالمین کی طرف سے ان کاموں کے لیے آسانیاں فراہم ہوں گی اور اس کی مدد شامل حال ہو گی۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (5 / 47 - 48)، وسيأتي (5080 // 598 / 3293 // بزيادة في المتن)
قال الشيخ زبير على زئي: (1714) إسناده ضعيف / يأتي:3084 أبوعبيدة لم يسمع من أبيه كما تقدم (1061) والأعمش عنعن (تقدم: 169)