عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب یہ آیت
«إن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله» نازل ہوئی تو لوگوں کے دلوں میں ایسا خوف و خطر پیدا ہوا جو اور کسی چیز سے پیدا نہ ہوا تھا۔ لوگوں نے یہ بات نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تو آپ نے فرمایا:
”(پہلے تو) تم
«سمعنا وأطعنا» کہو یعنی ہم نے سنا اور ہم نے بے چون و چرا بات مان لی،
(چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کہا) تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان ڈال دیا۔ اور اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں
«آمن الرسول بما أنزل إليه من ربه والمؤمنون» سے لے کر آخری آیت
«لا يكلف الله نفسا إلا وسعها لها ما كسبت وعليها ما اكتسبت ربنا لا تؤاخذنا إن نسينا أو أخطأنا»، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
”میں نے ایسا کر دیا
(تمہاری دعا قبول کر لی)“ «ربنا ولا تحمل علينا إصرا كما حملته على الذين من قبلنا» ”ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا
“، اللہ نے فرمایا:
”میں نے تمہارا کہا کر دیا
“،
«ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا واغفر لنا وارحمنا» ”اے اللہ! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جس کی طاقت ہم میں نہ ہو اور ہم سے درگزر فرما، اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما
“، اللہ نے فرمایا:
”میں نے ایسا کر دیا
(یعنی تمہاری دعا قبول کر لی)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث ابن عباس رضی الله عنہما سے دوسری سند سے بھی مروی ہے،
۳- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت
«فأما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تأويله» ۲؎ کی تفسیر پوچھی۔ تو آپ نے فرمایا:
”جب تم انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو
(کہ یہی لوگ اصحاب زیغ ہیں)۔ یزید کی روایت میں ہے
”جب تم لوگ انہیں دیکھو تو انہیں پہچان لو
“ یہ بات عائشہ رضی الله عنہا نے دو یا تین بار کہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔