(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا سويد بن عمرو الكلبي، حدثنا ابو عوانة، عن عبد الاعلى، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتقوا الحديث عني إلا ما علمتم، فمن كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار، ومن قال في القرآن برايه فليتبوا مقعده من النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ عَمْرٍو الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو کیونکہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 4 (30)، وانظر أیضا ماتقدم برقم 2257 (تحفة الأشراف: 9212)، و مسند احمد (1/389، 401، 402، 405، 436، 453) (صحیح متواتر)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے، اسی لیے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہو جانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں، اس سے ان لوگوں کے باطل افکار کی تردید ہو جاتی ہے جو عبادت کی ترغیب کے لیے فضائل کے سلسلہ میں وضع احادیث کے جواز کے قائل ہیں، اللہ رب العالمین ایسے فتنے سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین۔
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن موسى الفزاري ابن بنت السدي، حدثنا شريك بن عبد الله، عن منصور بن المعتمر، عن ربعي بن حراش، عن علي بن ابي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تكذبوا علي، فإنه من كذب علي يلج في النار " , وفي الباب عن ابي بكر، وعمر، وعثمان، والزبير، وسعيد بن زيد، وعبد الله بن عمرو، وانس، وجابر، وابن عباس، وابي سعيد، وعمرو بن عبسة، وعقبة بن عامر، ومعاوية، وبريدة، وابي موسى الغافقي، وابي امامة، وعبد الله بن عمر، والمنقع، واوس الثقفي , قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن صحيح، قال عبد الرحمن بن مهدي منصور بن المعتمر، اثبت اهل الكوفة، وقال وكيع: لم يكذب ربعي بن حراش في الإسلام كذبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ " , وفي الباب عن أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ، وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، وَبُرَيْدَةَ، وَأَبِي مُوسَى الْغَافِقِيِّ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَالْمُنْقَعِ، وَأَوْسٍ الثَّقَفِيِّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ، أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَقَالَ وَكِيعٌ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جھوٹ نہ باندھو کیونکہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، زبیر، سعید بن زید، عبداللہ بن عمرو، انس، جابر، ابن عباس، ابوسعید، عمرو بن عبسہ، عقبہ بن عامر، معاویہ، بریدہ، ابوموسیٰ، ابوامامہ، عبداللہ بن عمر، مقنع اور اوس ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 38 (106)، صحیح مسلم/المقدمة 2 (1)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 4 (31) (تحفة الأشراف: 10087)، و مسند احمد (1/83، 123، 150) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كذب علي حسبت انه قال: متعمدا فليتبوا بيته من النار " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث الزهري، عن انس، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتَهُ مِنَ النَّارِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے متعلق جھوٹی بات کہی“، (انس کہتے ہیں) میرا خیال ہے کہ آپ نے «من كذب علي» کے بعد «متعمدا» کا لفظ بھی کہا یعنی جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، ”تو ایسے شخص کا ٹھکانا جہنم ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔ یعنی زہری کی اس روایت سے جسے وہ انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے انس رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن ميمون بن ابي شبيب، عن المغيرة بن شعبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من حدث عني حديثا وهو يرى انه كذب فهو احد الكاذبين " , وفي الباب عن علي بن ابي طالب، وسمرة , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروى شعبة، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن سمرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث. وروى الاعمش، وابن ابي ليلى، عن الحكم، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وكان حديث عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن سمرة عند اهل الحديث اصح، قال: سالت ابا محمد عبد الله بن عبد الرحمن، عن حديث النبي صلى الله عليه وسلم: " من حدث عني حديثا وهو يرى انه كذب فهو احد الكاذبين "، قلت له: من روى حديثا وهو يعلم ان إسناده خطا ايخاف ان يكون قد دخل في حديث النبي صلى الله عليه وسلم؟ او إذا روى الناس حديثا مرسلا فاسنده بعضهم او قلب إسناده يكون قد دخل في هذا الحديث؟ فقال: لا إنما معنى هذا الحديث إذا روى الرجل حديثا ولا يعرف لذلك الحديث , عن النبي صلى الله عليه وسلم اصل فحدث به فاخاف ان يكون قد دخل في هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ " , وفي الباب عن عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَسَمُرَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ. وَرَوَى الْأَعْمَشُ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَأَنَّ حَدِيثَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ سَمُرَةَ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ أَصَحُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَدَّثَ عَنِّي حَدِيثًا وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ "، قُلْتُ لَهُ: مَنْ رَوَى حَدِيثًا وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّ إِسْنَادَهُ خَطَأٌ أَيُخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَوْ إِذَا رَوَى النَّاسُ حَدِيثًا مُرْسَلًا فَأَسْنَدَهُ بَعْضُهُمْ أَوْ قَلَبَ إِسْنَادَهُ يَكُونُ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: لَا إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ إِذَا رَوَى الرَّجُلُ حَدِيثًا وَلَا يُعْرَفُ لِذَلِكَ الْحَدِيثِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْلٌ فَحَدَّثَ بِهِ فَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ قَدْ دَخَلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میری طرف منسوب کر کے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو وہ دو جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے سمرہ سے، اور سمرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث روایت کی ہے، ۳- اعمش اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے، عبدالرحمٰن نے علی رضی الله عنہ سے اور علی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اور عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی حدیث جسے وہ سمرہ سے روایت کرتے ہیں، محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہے، ۴- اس باب میں علی ابن ابی طالب اور سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۵- میں نے ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث «من حدث عني حديثا وهو يرى أنه كذب فهو أحد الكاذبين» کے متعلق پوچھا کہ اس سے مراد کیا ہے، میں نے ان سے کہا کیا یہ کہ جس نے کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ اس کی اسناد میں کچھ خطا (غلطی اور کمی) ہے تو کیا یہ خوف و خطرہ محسوس کیا جائے کہ ایسا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی زد اور وعید میں آ گیا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں نے حدیث مرسل بیان کی تو انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اس مرسل کو مرفوع کر دیا یا اس کی اسناد کو ہی الٹ پلٹ دیا تو یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی زد میں آئیں گے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں۔ اس کا معنی (و مطلب) یہ ہے کہ جب کوئی شخص حدیث روایت کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس حدیث کے مرفوع ہونے کی کوئی اصل (وجہ و سبب) نہ جانی جاتی ہو، اور وہ شخص اسے مرفوع کر کے بیان کر دے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا یا ایسا کیا ہے تو مجھے ڈر ہے کہ ایسا ہی شخص اس حدیث کا مصداق ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابي، عن شريك، عن منصور، عن ربعي بن حراش، حدثنا علي بن ابي طالب، بالرحبة، قال: لما كان يوم الحديبية خرج إلينا ناس من المشركين فيهم سهيل بن عمرو، واناس من رؤساء المشركين، فقالوا: يا رسول الله خرج إليك ناس من ابنائنا , وإخواننا , وارقائنا وليس لهم فقه في الدين , وإنما خرجوا فرارا من اموالنا وضياعنا , فارددهم إلينا، قال: فإن لم يكن لهم فقه في الدين سنفقههم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " يا معشر قريش لتنتهن او ليبعثن الله عليكم من يضرب رقابكم بالسيف على الدين، قد امتحن الله قلبه على الإيمان "، قالوا: من هو يا رسول الله؟ فقال له ابو بكر: من هو يا رسول الله؟ وقال عمر: من هو يا رسول الله؟ قال: " هو خاصف النعل وكان اعطى عليا نعله يخصفها، ثم التفت إلينا علي "، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث ربعي عن علي، قال: وسمعت الجارود، يقول: سمعت وكيعا يقول: لم يكذب ربعي بن حراش في الإسلام كذبة، واخبرني محمد بن إسماعيل، عن عبد الله بن ابي الاسود، قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: منصور بن المعتمر اثبت اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، بِالرَّحَبَةِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إِلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، وَأُنَاسٌ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجَ إِلَيْكَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا , وَإِخْوَانِنَا , وَأَرِقَّائِنَا وَلَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ , وَإِنَّمَا خَرَجُوا فِرَارًا مِنْ أَمْوَالِنَا وَضِيَاعِنَا , فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا، قَالَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّينِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثَنَّ اللَّهُ عَلَيْكُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَكُمْ بِالسَّيْفِ عَلَى الدِّينِ، قَدِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ عَلَى الْإِيمَانِ "، قَالُوا: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ وَقَالَ عُمَرُ: مَنْ هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ وَكَانَ أَعْطَى عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ "، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ رِبْعِيٍّ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: وَسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا يَقُولُ: لَمْ يَكْذِبْ رِبْعِيُّ بْنُ حِرَاشٍ فِي الْإِسْلَامِ كَذْبَةً، وَأَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ ہم سے علی بن ابوطالب رضی الله عنہ نے «رحبیہ»(مخصوص بیٹھک) میں بیان کیا، حدیبیہ کے دن مشرکین میں سے کچھ لوگ ہماری طرف نکلے، ان میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کچھ اور سردار بھی تھے یہ سب آ کر کہنے لگے: اللہ کے رسول! ہمارے بیٹوں، بھائیوں اور غلاموں میں سے کچھ آپ کی طرف نکل کر آ گئے ہیں، انہیں دین کی سمجھ نہیں وہ ہمارے مال اور سامانوں کے درمیان سے بھاگ آئے ہیں، آپ انہیں واپس کر دیجئیے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ قریش! تم اپنی نفسیانیت سے باز آ جاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر ایسے شخص کو بھیجے گا جو تمہاری گردنیں اسی دین کی خاطر تلوار سے اڑائے گا، اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے لیے جانچ لیا ہے، لوگوں نے عرض کیا: وہ کون شخص ہے؟ اللہ کے رسول! اور آپ سے ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی پوچھا: وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ اور عمر رضی الله عنہ نے بھی کہ وہ کون ہے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: ”وہ جوتی ٹانکنے والا ہے، اور آپ نے علی رضی الله عنہ کو اپنا جوتا دے رکھا تھا، وہ اسے ٹانک رہے تھے، (راوی کہتے ہیں) پھر علی رضی الله عنہ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو میرے اوپر جھوٹ باندھے اسے چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنا لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے اس سند سے صرف ربعی ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ علی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں، ۲- میں نے جارود سے سنا وہ کہہ رہے تھے: میں نے وکیع کو کہتے ہوئے سنا کہ ربعی بن حراش نے اسلام میں کبھی کوئی جھوٹ نہیں بولا، ۳- اور مجھے محمد بن اسماعیل بخاری نے خبر دی اور وہ عبداللہ بن ابی اسود سے روایت کر رہے تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی کو کہتے سنا: منصور بن معتمر اہل کوفہ میں سب سے ثقہ آدمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الجھاد 136 (2700)، وانظر أیضا حدیث رقم 2660 (تحفة الأشراف: 10088) (ضعیف الإسناد) (سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں، لیکن حدیث کا آخری لفظ ”من کذب …“ دیگر سندوں سے صحیح متواتر ہے، ملاحظہ ہو: حدیث نمبر (2660، اور 2659، اور 2661)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد، لكن الجملة الأخيرة منه صحيحة متواترة انظر الحديث (2796) // صحيح سنن الترمذي - باختصار السند - (2141 / 2809)، وصحيح سنن النسائي - باختصار السند - 2141 - 2809) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3715) إسناده ضعيف / د 2700 شريك القاضي عنعن (تقدم:112) وجاء تصريح سماعه فى فضائل الصحابة لاحمد (1105) وسنده ضعيف جدًا ولبعض الحديث شواهد وقول منصور وقول وكيع صحيحان عنهما