عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
”چالیس دن میں قرآن پورا پڑھ لیا کرو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- بعضوں نے معمر سے، اور معمر نے سماک بن فضل کے واسطہ سے وہب بن منہہ سے روایت کی ہے، کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کو حکم دیا کہ وہ قرآن چالیس دن میں پڑھا کریں۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن پڑھ ڈالوں؟ آپ نے فرمایا:
”مہینے میں ایک بار ختم کرو
“، میں نے کہا میں اس سے بڑھ کر
(یعنی کم مدت میں) ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
”تو بیس دن میں ختم کرو
“۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی یعنی اور بھی کم مدت میں ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
”پندرہ دن میں ختم کر لیا کرو
“۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا:
”دس دن میں ختم کر لیا کرو
“۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا:
”پانچ دن میں ختم کر لیا کرو
“۔ میں نے کہا: میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ تو آپ نے مجھے پانچ دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنے کی اجازت نہیں دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- یہ حدیث بطریق:
«أبي بردة عن عبد الله بن عمرو» غریب سمجھی گئی ہے،
۳- یہ حدیث کئی سندوں سے عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے۔ عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے قرآن تین دن سے کم مدت میں پڑھا، اس نے قرآن کو نہیں سمجھا
“،
۴- عبداللہ بن عمرو سے
(یہ بھی) مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
”قرآن چالیس دن میں پڑھ ڈالا کرو
“،
۵- اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کہتے ہیں: ہم اس حدیث کی بنا پر کسی آدمی کے لیے یہ پسند نہیں کرتے کہ اس پر چالیس دن سے زیادہ گزر جائیں اور وہ قرآن پاک ختم نہ کر چکا ہو،
۶- اس حدیث کی بنا پر جو نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن پڑھ کر نہ ختم کیا جائے،
۷- اور بعض اہل علم نے اس کی رخصت دی ہے،
۸- اور عثمان بن عفان سے متعلق ہے مروی ہے کہ وہ وتر کی ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے،
۹- سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ انہوں نے کعبہ کے اندر ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھا،
۱۰- قرأت میں ترتیل
(ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا) اہل علم کے نزدیک پسندیدہ ہے۔