9. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَجِّ
9. باب: سورۃ الحج میں «وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» کی قرأت کا بیان۔
Chapter: ….
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا:
«وترى الناس سكارى وما هم بسكارى» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- قتادہ صحابہ میں سے انس ابوطفیل کے علاوہ کسی اور صحابی سے ہم سماع نہیں جانتے،
۳- یہ روایت میرے نزدیک مختصر ہے۔ پوری روایت اس طرح ہے: روایت کی گئی قتادہ سے، قتادہ نے روایت کی حسن بصری سے، اور حسن بصری نے روایت کی عمران بن حصین سے، ہم نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے تو آپ نے آیت
«يا أيها الناس اتقوا ربكم» ۲؎ پڑھی،
(آگے) پوری حدیث بیان کی،
۴- حکم بن عبدالملک کی حدیث میرے نزدیک اس حدیث سے مختصر ہے۔
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، اور چلنے میں ایک دوسرے سے آگے پیچھے ہو گئے تھے، آپ نے بآواز بلند یہ دونوں آیتیں:
«يا أيها الناس اتقوا ربكم إن زلزلة الساعة شيء عظيم» سے لے کر
«عذاب الله شديد» تک تلاوت فرمائی، جب صحابہ نے یہ سنا تو اپنی سواریوں کو ابھار کر ان کی رفتار بڑھا دی، اور یہ جان لیا کہ کوئی بات ہے جسے آپ فرمانے والے ہیں، آپ نے فرمایا:
”کیا تم جانتے ہو یہ کون سا دن ہے؟
“، صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا:
”یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام کو پکاریں گے اور وہ اپنے رب کو جواب دیں گے، اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا:
«ابعث بعث النار» ”بھیجو جہنم میں جانے والی جماعت کو
“، آدم علیہ السلام کہیں گے: اے ہمارے رب!
«بعث النار» ”کیا ہے
(یعنی کتنے)؟
“ اللہ کہے گا: ایک ہزار افراد میں سے نو سو ننانوے جہنم میں جائیں گے اور ایک جنت میں جائے گا، یہ سن کر لوگ مایوس ہو گئے، ایسا لگا کہ اب یہ زندگی بھر کبھی ہنسیں گے نہیں، پھر جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی یہ
(مایوسانہ) کیفیت و گھبراہٹ دیکھی تو فرمایا:
”اچھے بھلے کام کرو اور خوش ہو جاؤ
(اچھے اعمال کے صلے میں جنت پاؤ گے) قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! تم ایسی دو مخلوق کے ساتھ ہو کہ وہ جس کے بھی ساتھ ہو جائیں اس کی تعداد بڑھا دیں، ایک یاجوج و ماجوج اور دوسرے وہ جو اولاد آدم اور اولاد ابلیس میں سے
(حالت کفر میں) مر چکے ہیں، آپ کی اس بات سے لوگوں کے رنج و فکر کی اس کیفیت میں کچھ کمی آئی جسے لوگ شدت سے محسوس کر رہے تھے اور اپنے دلوں میں موجود پا رہے تھے۔
“ آپ نے فرمایا:
”نیکی کا عمل جاری رکھو، اور ایک دوسرے کو خوشخبری دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے! تم تو لوگوں میں بس ایسے ہو جیسے اونٹ
(جیسے بڑے جانور) کے پہلو
(پسلی) میں کوئی داغ یا نشان ہو، یا چوپائے کی اگلی دست میں کوئی تل ہو
“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔