(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس هو رجل بصري، قال: سالت عائشة عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف كان يوتر من اول الليل او من آخره؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يصنع، ربما اوتر من اول الليل وربما اوتر من آخره، فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، فقلت: كيف كانت قراءته؟ اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، قد كان ربما اسر وربما جهر، قال: فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة، قلت: فكيف كان يصنع في الجنابة؟ اكان يغتسل قبل ان ينام او ينام قبل ان يغتسل؟ قالت: كل ذلك قد كان يفعل، فربما اغتسل فنام وربما توضا فنام، قلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ؟ فَقَالَتْ: " كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ، رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ؟ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ؟ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ، فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ، قُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن ابی قیس بصریٰ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یا آخری حصے میں؟ انہوں نے کہا: آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: الحمدللہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت و کشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آواز سے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا: الحمدللہ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت و کشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا: آپ جب جنبی ہو جاتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کیا سونے سے پہلے غسل کر لیتے تھے یا غسل کیے بغیر سو جاتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام ہی کرتے تھے، کبھی تو آپ غسل کر لیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کر کے سو جاتے، میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت و کشادگی رکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 449 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (222 - 1291)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، انه سال عائشة عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: " من كل الليل قد اوتر اوله واوسطه وآخره فانتهى وتره حين مات إلى السحر ". قال ابو عيسى: ابو حصين اسمه: عثمان بن عاصم الاسدي، قال: وفي الباب عن علي , وجابر , وابي مسعود الانصاري , وابي قتادة،. قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح، وهو الذي اختاره بعض اهل العلم الوتر من آخر الليل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " مِنْ كُلِّ اللَّيْلِ قَدْ أَوْتَرَ أَوَّلَهُ وَأَوْسَطَهُ وَآخِرَهُ فَانْتَهَى وِتْرُهُ حِينَ مَاتَ إِلَى السَّحَرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: أَبُو حَصِينٍ اسْمُهُ: عُثْمَانُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَسَدِيُّ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وجَابِرٍ , وَأَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ , وَأَبِي قَتَادَةَ،. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الْوِتْرُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ.
مسروق سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا ہے۔ شروع رات میں بھی درمیان میں بھی اور آخری حصے میں بھی۔ اور جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کا وتر سحر تک پہنچ گیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، ابومسعود انصاری اور ابوقتادہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کے نزدیک یہی پسندیدہ ہے کہ وتر رات کے آخری حصہ میں پڑھی جائے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: ان دونوں حدیثوں اور اس باب میں مروی دیگر حدیثوں کا ماحصل یہ ہے کہ یہ آدمی پر منحصر ہے، وہ جب آخری پہر رات میں اٹھنے کا یقین کامل رکھتا ہو تو عشاء کے بعد یا سونے سے پہلے ہی وتر نہ پڑھے بلکہ آخری رات میں پڑھے، اور اگر اس طرح کا یقین نہ ہو تو عشاء کے بعد سونے سے پہلے ہی پڑھ لے، اس مسئلہ میں ہر طرح کی گنجائش ہے۔