(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبثر بن القاسم، عن الاشعث وهو ابن سوار، عن ابي إسحاق، عن جابر بن سمرة، قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ليلة إضحيان، فجعلت انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وإلى القمر وعليه حلة حمراء فإذا هو عندي احسن من القمر "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الاشعث.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنِ الْأَشْعَثِ وَهُوَ ابْنُ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى الْقَمَرِ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ فَإِذَا هُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَشْعَثِ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا (کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے ۱؎، اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف اشعث کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 2208) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار قاضی اہواز ضعیف راوی ہیں، انہوں نے اس حدیث کو براء بن عازب کی بجائے جابر بن سمرہ کی روایت بنا سنن الدارمی/ ہے، براء بن عازب کی روایت رقم 1724 پر گزر چکی ہے)»
وضاحت: ۱؎: بعض علماء کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سرخ لباس خالص سرخ رنگ کا نہیں تھا بلکہ اس میں سرخ رنگ کی دھاریاں تھیں، ظاہر ہے ایسے سرخ لباس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: (حديث البراء) صحيح، (حديث جابر بن سمرة) ضعيف (حديث البراء) وتقدم بأتم منه (1724) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (1408 - 1794) //، (حديث جابر بن سمرة) مختصر الشمائل (8) // ووقع فيه: صحيح، وهو خطأ //
قال الشيخ زبير على زئي: (2811) إسناده ضعيف أشعت بن سوار: ضعيف (تقدم: 649) وحديث أبى إسحاق عن البراء بن عازب رضى الله عنه صحيح متفق عليه
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: " ما رايت من ذي لمة في حلة حمراء احسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين، لم يكن بالقصير ولا بالطويل "، قال ابو عيسى: وفي الباب، عن جابر بن سمرة، وابي رمثة، وابي جحيفة، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَأَبِي رِمْثَةَ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سرخ جوڑے میں کسی لمبے بال والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال شانوں کو چھوتے تھے، آپ کے شانوں کے درمیان دوری تھی، آپ نہ کوتاہ قد تھے اور نہ لمبے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر بن سمرہ، ابورمثہ اور ابوجحیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المناقب 33 (3551)، واللباس 35 (5848)، و68 (5903)، صحیح مسلم/الفضائل 25 (2337)، سنن ابی داود/ الترجل 9 (4183)، سنن النسائی/الزینة 9 (5063)، و 59 (5234)، و 93 (5248)، سنن ابن ماجہ/اللباس 20 (3599)، (تحفة الأشراف: 1847)، و مسند احمد (4/281، 295) و یأتي برقم 3635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سرخ لباس کی بابت حالات و ظروف کی رعایت ضروری ہے، اگر یہ عورتوں کا مخصوص زیب و زینت والا لباس ہے جیسا کہ آج کے اس دور میں شادی کے موقع پر سرخ جوڑا دلہن کو خاص طور سے دیا جاتا ہے تو مردوں کا اس سے بچنا بہتر ہے، خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس سرخ جوڑے کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیسا تھا؟ خلاصہ اقوال یہ ہے کہ یہ سرخ جوڑا یا دیگر لال لباس جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہنے تھے، ان میں تانا اور بانا میں رنگوں کا اختلاف تھا، بالکل خالص لال رنگ کے وہ جوڑے نہیں تھے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: " ما رايت من ذي لمة في حلة حمراء احسن من رسول الله صلى الله عليه وسلم، له شعر يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين، لم يكن بالقصير ولا بالطويل ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ أَحْسَنَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَهُ شَعْرٌ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، لَمْ يَكُنْ بِالْقَصِيرِ وَلَا بِالطَّوِيلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو جس کے بال کان کی لو کے نیچے ہوں سرخ جوڑے ۱؎ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا، آپ کے بال آپ کے دونوں کندھوں سے لگے ہوتے تھے ۲؎، اور آپ کے دونوں کندھوں میں کافی فاصلہ ہوتا تھا ۳؎، نہ آپ پستہ قد تھے نہ بہت لمبے ۴؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1724 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ کے بالوں کی مختلف اوقات میں کئی حالت ہوا کرتی تھی، کبھی آدھے کانوں تک، کبھی کانوں کے لؤوں تک، کبھی آدھی گردن تک، اور کبھی کندھوں کو چھوتے ہوئے۔
۲؎: مردوں کے لال کپڑے پہننے کے سلسلے میں علماء درمیان مختلف روایات کی وجہ سے اختلاف ہے، زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ آپ کا یہ جوڑا ایسا تھا کہ اس کا تانہ لال رنگ تھا، یہ بالکل خالص لال نہیں تھا، کیونکہ آپ نے خود خالص لال سے مردوں کے لیے منع کیا ہے، (دیکھئیے کتاب اللباس میں مردوں کے لیے لال کپڑے پہننے کا باب)۔
۳؎: یعنی آپ کے کندھے کافی چوڑے تھے۔
۴؎: ناٹا اور لمبا ہونا دونوں معیوب صفتیں ہیں، آپ درمیانی قد کے تھے، عیب سے مبرا، ماشاء اللہ۔