(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، ان اسامة بن زيد اخبره: ان النبي صلى الله عليه وسلم " مر بمجلس وفيه اخلاط من المسلمين واليهود فسلم عليهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَرَّ بِمَجْلِسٍ وَفِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْيَهُودِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسامہ بن زید رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان اور یہود دونوں تھے تو آپ نے انہیں سلام کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر آل عمران 15 (4566)، والمرضی 15 (5663)، والأدب 115 (6207)، والاستئذان 20 (6254)، صحیح مسلم/الجھاد 40 (1798) (تحفة الأشراف: 109)، و مسند احمد (5/203) (کلہم سوی المؤلف في سیاق طویل فیہ قصة) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ ایسی مجلس جس میں مسلمان اور کافر دونوں موجود ہوں، اس میں مسلمانوں کو اپنا مخاطب سمجھ کر انہیں السلام علیکم کہنا چاہیئے۔
(مرفوع) حدثنا سعيد بن عبد الرحمن المخزومي، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: إن رهطا من اليهود دخلوا على النبي صلى الله عليه وسلم فقالوا: السام عليك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " عليكم "، فقالت عائشة: بل عليكم السام واللعنة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا عائشة " إن الله يحب الرفق في الامر كله " , قالت عائشة: الم تسمع ما قالوا؟ قال: " قد قلت: عليكم " , وفي الباب عن ابي بصرة الغفاري، وابن عمر، وانس، وابي عبد الرحمن الجهني , قال ابو عيسى: حديث عائشة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَهْطًا مِنَ الْيَهُودِ دَخَلُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَيْكُمْ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ " , قَالَتْ عَائِشَةُ: أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا؟ قَالَ: " قَدْ قُلْتُ: عَلَيْكُمْ " , وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: «السّام عليك»”تم پر موت و ہلاکت آئے“، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: «عليكم»۱؎، عائشہ نے (اس پر دو لفظ بڑھا کر) کہا «بل عليكم السام واللعنة»”بلکہ تم پر ہلاکت اور لعنت ہو“۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں رفق، نرم روی اور ملائمیت کو پسند کرتا ہے“، عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: کیا آپ نے سنا نہیں؟ انہوں نے کیا کہا ہے؟۔ آپ نے فرمایا: ”تبھی تو میں نے «عليكم» کہا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو بصرہ غفاری، ابن عمر، انس اور ابوعبدالرحمٰن جہنی سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الستتابة المرتدین 4 (6927)، صحیح مسلم/السلام 4 (2165) (تحفة الأشراف: 16437)، و مسند احمد (6/199) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: گویا آپ نے «عليكم» کہہ کر یہود کی بد دعا خود انہیں پر لوٹا دی۔