(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا زيد بن حباب، عن معاوية بن صالح، عن عمرو بن قيس، عن عبد الله بن بسر، ان اعرابيا، قال: يا رسول الله، من خير الناس؟ قال: " من طال عمره وحسن عمله "، وفي الباب عن ابي هريرة، وجابر، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ خَيْرُ النَّاسِ؟ قَالَ: " مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن بسر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: عمر لمبی ہو گی اور عمل اچھا ہو گا تو نیکیاں زیادہ ہوں گی، اس لیے یہ مومن کے حق میں بہتر ہے، اس کے برعکس اگر عمر لمبی ہو اور اعمال برے ہوں تو یہ اور برا معاملہ ہو گا، «أعاذنا الله منه» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1836)، المشكاة (5285 / التحقيق الثانى)، الروض النضير (926)
ابوبکرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے بہتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل نیک ہو“، اس آدمی نے پھر پوچھا کہ لوگوں میں سب سے بدتر شخص کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”جس کی عمر لمبی ہو اور عمل برا ہو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 11689) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر جیسے سابقہ حدیث سے یہ حدیث صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: ایک تاجر کی نگاہ میں راس المال اور سرمایہ کی جو حیثیت ہے وہی حیثیت اور مقام وقت کا ہے، تاجر اپنے سرمایہ کو ہمیشہ بڑھانے کا خواہشمند ہوتا ہے، اسی طرح لمبی مدت پانے والے کو چاہیئے کہ اس کے اوقات زیادہ سے زیادہ نیکی کے کاموں میں گزاریں، اگر اس نے اپنی زندگی کے اس سرمایہ کو اسی طرح باقی رکھا تو جس طرح سرمایہ بڑھانے کا خواہشمند تاجر اکثر نفع کماتا ہے، اسی طرح یہ بھی فائدہ ہی حاصل کرتا رہے گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (2329)
قال الشيخ زبير على زئي: (2330) إسناده ضعيف على بن زيد بن جدعان ضعيف (تقدم: 589) وللحديث السابق (الأصل: 2329) يغني عنه