(مرفوع) حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي، اخبرنا سفيان ابن عيينة، اخبرنا محمد بن المنكدر، سمع جابر بن عبد الله، يقول: " مرضت فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني فوجدني قد اغمي علي، فاتى ومعه ابو بكر وعمر، وهما ماشيان، فتوضا رسول الله صلى الله عليه وسلم فصب علي من وضوئه، فافقت، فقلت: يا رسول الله، كيف اقضي في مالي، او كيف اصنع في مالي، فلم يجبني شيئا، وكان له تسع اخوات حتى نزلت آية الميراث يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176الآية "، قال جابر: في نزلت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: " مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَجَدَنِي قَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَأَتَى وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي، أَوْ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي، فَلَمْ يُجِبْنِي شَيْئًا، وَكَانَ لَهُ تِسْعُ أَخَوَاتٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176الْآيَةَ "، قَالَ جَابِرٌ: فِيَّ نَزَلَتْ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے آئے، آپ نے مجھے بیہوش پایا، آپ کے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی تھے، وہ پیدل چل کر آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی میرے اوپر ڈال دیا، میں ہوش میں آ گیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ یا میں اپنے مال (کی تقسیم) کیسے کروں؟ (یہ راوی کا شک ہے) آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا - جابر رضی الله عنہ کے پاس نو بہنیں تھیں - یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی: «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة»”لوگ آپ سے (کلالہ ۱؎ کے بارے میں) فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے: اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے“(النساء: ۱۷۶)۔ جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرحمن بن سعد، اخبرنا عمرو بن ابي قيس، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: " جاءني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني وانا مريض في بني سلمة، فقلت: يا نبي الله، كيف اقسم مالي بين ولدي، فلم يرد علي شيئا، فنزلت: يوصيكم الله في اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين سورة النساء آية 11 الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه شعبة، وابن عيينة، وغيره عن بن المنكدر، عن جابر.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " جَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ فِي بَنِي سَلَمَةَ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْسِمُ مَالِي بَيْنَ وَلَدِي، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَنَزَلَتْ: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ سورة النساء آية 11 الْآيَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وغيره عَنْ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کی غرض سے تشریف لائے اس وقت میں بنی سلمہ کے محلے میں بیمار تھا، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنا مال اپنی اولاد ۱؎ کے درمیان کیسے تقسیم کروں؟ آپ نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين»”اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے“(النساء: ۱۱)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ، سفیان بن عیینہ اور دوسرے لوگوں نے بھی یہ حدیث محمد بن منکدر کے واسطہ سے جابر رضی الله عنہ سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف و أعادہ في تفسیر النساء (3015) (تحفة الأشراف: 3066) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگلی روایت جو صحیحین کی ہے اس میں اولاد کی بجائے بہنوں کا تذکرہ ہے، اور صحیح واقعہ بھی یہی ہے کہ جابر رضی الله عنہ کی اس وقت تو اولاد تھی ہی نہیں، اس لیے یہ روایت صحیح ہونے کے باوجود ”شاذ“ کی قبیل سے ہوئی (دیکھئیے اگلی روایت)۔