(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، عن ابي غسان محمد بن مطرف، عن حسان بن عطية، عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الحياء والعي شعبتان من الإيمان، والبذاء والبيان شعبتان من النفاق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من حديث ابي غسان محمد بن مطرف، قال: والعي: قلة الكلام، والبذاء: هو الفحش في الكلام، والبيان: هو كثرة الكلام مثل هؤلاء الخطباء الذين يخطبون فيوسعون في الكلام ويتفصحون فيه من مدح الناس فيما لا يرضي الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، قَالَ: وَالْعِيُّ: قِلَّةُ الْكَلَامِ، وَالْبَذَاءُ: هُوَ الْفُحْشُ فِي الْكَلَامِ، وَالْبَيَانُ: هُوَ كَثْرَةُ الْكَلَامِ مِثْلُ هَؤُلَاءِ الْخُطَبَاءِ الَّذِينَ يَخْطُبُونَ فَيُوَسِّعُونَ فِي الْكَلَامِ وَيَتَفَصَّحُونَ فِيهِ مِنْ مَدْحِ النَّاسِ فِيمَا لَا يُرْضِي اللَّهَ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب، ہم اسے صرف ابوغسان محمد بن مطرف ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- «عي» کا معنی ”کم گوئی“ اور «بذاء» کا معنی ”فحش گوئی“ ہے، «بيان» کا معنی ”کثرت کلام“ ہے، مثلا وہ مقررین جو لمبی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی تعریف میں ایسی فصاحت بگھاڑتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: حیاء اور کم گوئی کے سبب انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے، یہ دونوں خصلتیں انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہیں، جب کہ بک بک کرتے رہنے سے انسان جھوٹ گوئی کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اور جو دل میں ہو اس کے خلاف بھی بول پڑتا ہے، یہی نفاق ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان ابن أبى شيبة (118)، المشكاة (4796 / التحقيق الثانى)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن منصور، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال: مر رجل على حذيفة بن اليمان، فقيل له: إن هذا يبلغ الامراء الحديث عن الناس، فقال حذيفة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يدخل الجنة قتات "، قال سفيان: والقتات: النمام، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا يُبَلِّغُ الْأُمَرَاءَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّاسِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ "، قَالَ سُفْيَانُ: وَالْقَتَّاتُ: النَّمَّامُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا، ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے، تو حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”چغل خور جنت میں نہیں داخل ہو گا“۱؎۔ سفیان کہتے ہیں: «قتات»، «نمام»”چغل خور“ کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: حاکموں اور حکومتی عہدہ داروں کے پاس اہل ایمان اور صالح لوگوں کی چغلی کرنے والوں، ان کی رپورٹیں بنا بنا کر پیش کرنے والوں اور جھوٹ سچ ملا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے، دنیاوی مفادات چار دن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اخروی حیات کا آخری کوئی سرا نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1034)، غاية المرام (433)