انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر والوں کے ساتھ اس قدر مل جل کر رہتے تھے کہ ہمارے چھوٹے بھائی سے فرماتے: ابوعمیر! نغیر کا کیا ہوا؟ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 333 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: نغیر گوریا کی مانند ایک چڑیا ہے جس کی چونچ لال ہوتی ہے، ابوعمیر نے اس چڑیا کو پال رکھا تھا اور اس سے بہت پیار کرتے تھے، جب وہ مر گئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تسلی مزاح کے طور پر ان سے پوچھتے تھے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن ابي التياح الضبعي، قال: سمعت انس بن مالك، يقول: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخالطنا حتى إن كان يقول لاخ لي صغير: يا ابا عمير ما فعل النغير، قال: ونضح بساط لنا فصلى عليه "قال: وفي الباب عن ابن عباس، قال ابو عيسى: حديث انس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم لم يروا بالصلاة على البساط والطنفسة باسا، وبه يقول: احمد , وإسحاق، واسم ابي التياح: يزيد بن حميد.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَالِطُنَا حَتَّى إِنْ كَانَ يَقُولُ لِأَخٍ لِي صَغِيرٍ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ، قَالَ: وَنُضِحَ بِسَاطٌ لَنَا فَصَلَّى عَلَيْهِ "قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ لَمْ يَرَوْا بِالصَّلَاةِ عَلَى الْبِسَاطِ وَالطُّنْفُسَةِ بَأْسًا، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَاسْمُ أَبِي التَّيَّاحِ: يَزِيدُ بْنُ حُمَيْدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے گھل مل جایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ میرے چھوٹے بھائی سے کہتے: ابوعمیر! «ما فعل النغير»”بلبل کا کیا ہوا؟“ ہماری چٹائی ۱؎ پر چھڑکاؤ کیا گیا پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ وہ چادر اور قالین پر نماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 81 (6129)، و112 (6203)، صحیح مسلم/المساجد 48 (659)، سنن ابن ماجہ/الأدب 24 (3720)، (تحفة الأشراف: 1692)، مسند احمد (3/212)، ویأتي عند المؤلف في البر والصلة برقم: (1989) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «بساط» یعنی بچھاون سے مراد چٹائی ہے کیونکہ یہ زمین پر بچھائی جاتی ہے۔