سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
15. باب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنَ الْفَضْلِ
15. باب: اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: Virtue Of Performing Salat at the Beginning Of Its Prescribed Time
حدیث نمبر: 171
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن ابي طالب، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال له: " يا علي ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا آنت، والجنازة إذا حضرت، والايم إذا وجدت لها كفئا ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر) مل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 18 (1486)، (تحفة الأشراف: 10251)، وانظرحم (1/105)، (ویأتی عند المؤلف فی الجنائز برقم: 1075) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمر بن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیسا کہ مؤلف نے خود کتاب الجنائز میں تصریح کی ہے، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (605)، // ضعيف الجامع الصغير - بترتيبى - برقم (2563) ويأتى برقم (182 / 1087) //
حدیث نمبر: 482
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء، حدثنا زيد بن حباب العكلي، حدثنا موسى بن عبيدة، حدثني سعيد بن ابي سعيد مولى ابي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن ابي رافع، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للعباس: " يا عم الا اصلك الا احبوك الا انفعك " قال: بلى يا رسول الله، قال: " يا عم صل اربع ركعات تقرا في كل ركعة بفاتحة الكتاب وسورة، فإذا انقضت القراءة فقل: الله اكبر والحمد لله وسبحان الله ولا إله إلا الله خمس عشرة مرة قبل ان تركع، ثم اركع فقلها عشرا، ثم ارفع راسك فقلها عشرا ثم اسجد فقلها عشرا ثم ارفع راسك فقلها عشرا، ثم اسجد الثانية فقلها عشرا، ثم ارفع راسك فقلها عشرا قبل ان تقوم، فتلك خمس وسبعون في كل ركعة هي ثلاث مائة في اربع ركعات، فلو كانت ذنوبك مثل رمل عالج لغفرها الله لك " قال: يا رسول الله ومن يستطيع ان يقولها في كل يوم، قال: " فإن لم تستطع ان تقولها في كل يوم فقلها في جمعة، فإن لم تستطع ان تقولها في جمعة فقلها في شهر، فلم يزل يقول له حتى قال: فقلها في سنة " قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من حديث ابي رافع.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ الْعُكْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ: " يَا عَمِّ أَلَا أَصِلُكَ أَلَا أَحْبُوكَ أَلَا أَنْفَعُكَ " قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " يَا عَمِّ صَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ، فَإِذَا انْقَضَتِ الْقِرَاءَةُ فَقُلْ: اللَّهُ أَكْبَرُ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً قَبْلَ أَنْ تَرْكَعَ، ثُمَّ ارْكَعْ فَقُلْهَا عَشْرًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ اسْجُدْ فَقُلْهَا عَشْرًا ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ثُمَّ اسْجُدِ الثَّانِيَةَ فَقُلْهَا عَشْرًا، ثُمَّ ارْفَعْ رَأْسَكَ فَقُلْهَا عَشْرًا قَبْلَ أَنْ تَقُومَ، فَتِلْكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ هِيَ ثَلَاثُ مِائَةٍ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، فَلَوْ كَانَتْ ذُنُوبُكَ مِثْلَ رَمْلِ عَالِجٍ لَغَفَرَهَا اللَّهُ لَكَ " قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَسْتَطِيعُ أَنْ يَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ، قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ فَقُلْهَا فِي جُمْعَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَقُولَهَا فِي جُمُعَةٍ فَقُلْهَا فِي شَهْرٍ، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ لَهُ حَتَّى قَالَ: فَقُلْهَا فِي سَنَةٍ " قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي رَافِعٍ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے چچا) عباس رضی الله عنہ سے فرمایا: اے چچا! کیا میں آپ کے ساتھ صلہ رحمی نہ کروں، کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کو نفع نہ پہنچاؤں؟ وہ بولے: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ چار رکعت نماز پڑھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھیں، جب قرأت پوری ہو جائے تو «اللہ اکبر»، «الحمد للہ»، «سبحان اللہ»، «لا إلہ إلا اللہ» پندرہ مرتبہ رکوع کرنے سے پہلے کہیں، پھر رکوع میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات رکوع میں کہیں، پھر اپنا سر اٹھائیں اور یہی کلمات دس مرتبہ رکوع سے کھڑے ہو کر کہیں۔ پھر سجدے میں جائیں تو یہی کلمات دس مرتبہ کہیں، پھر سر اٹھائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ پھر دوسرے سجدے میں جائیں تو دس مرتبہ یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے اپنا سر اٹھائیں تو کھڑے ہونے سے پہلے دس مرتبہ یہی کلمات کہیں۔ اسی طرح ہر رکعت میں کہیں، یہ کل ۷۵ کلمات ہوئے اور چاروں رکعتوں میں تین سو کلمات ہوئے۔ تو اگر آپ کے گناہ بہت زیادہ ریت والے بادلوں کے برابر بھی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا۔ تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! روزانہ یہ کلمات کہنے کی قدرت کس میں ہے؟ آپ نے فرمایا: آپ روزانہ یہ کلمات نہیں کہہ سکتے تو ہر جمعہ کو کہیں اور اگر ہر جمعہ کو بھی نہیں کہہ سکتے تو ہر ماہ میں کہیں، وہ برابر یہی بات کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: تو ایک سال میں آپ اسے کہہ لیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث ابورافع رضی الله عنہ کی روایت سے غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة190 (1386)، (تحفة الأشراف: 12015) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ اگر آپ سال بھر میں بھی ایک بار صلاۃ التسبیح نہ پڑھ سکتے ہوں تو پھر زندگی میں ایک بار ہی سہی، عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے مروی بعض احادیث میں ذکر ہے کہ یہ صلاۃ التسبیح سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی جائے، اولیٰ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1386)
حدیث نمبر: 1075
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الله بن وهب، عن سعيد بن عبد الله الجهني، عن محمد بن عمر بن علي بن ابي طالب، عن ابيه، عن علي بن ابي طالب، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له: " يا علي، ثلاث لا تؤخرها: الصلاة إذا اتت، والجنازة إذا حضرت، والايم إذا وجدت لها كفئا ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وما ارى إسناده بمتصل.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَمَا أَرَى إِسْنَادَهُ بِمُتَّصِلٍ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: نماز کو جب اس کا وقت ہو جائے، جنازہ کو جب آ جائے، اور بیوہ (کے نکاح) کو جب تم اس کا کفو (مناسب ہمسر) پا لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- میں اس کی سند متصل نہیں جانتا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 18 (1486) (تحفة الأشراف: 10251) (ضعیف) (سند میں سعید بن عبداللہ جہنی لین الحدیث ہیں لیکن دیگر دلائل سے حدیث کا معنی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1486) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (326)، المشكاة (605)، ضعيف الجامع الصغير (2563 و 6181)، وتقدم برقم (25 / 172) //

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.