(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن ابن شهاب، عن ابن محيصة اخا بني حارثة، عن ابيه، انه استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في إجارة الحجام، فنهاه عنها، فلم يزل يساله، ويستاذنه، حتى قال: " اعلفه ناضحك، واطعمه رقيقك ". قال: وفي الباب، عن رافع بن خديج، وابي جحيفة، وجابر، والسائب بن يزيد. قال ابو عيسى: حديث محيصة حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، وقال احمد: إن سالني حجام نهيته، وآخذ بهذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، فَنَهَاهُ عَنْهَا، فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ، وَيَسْتَأْذِنُهُ، حَتَّى قَالَ: " اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، وَأَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَجَابِرٍ، وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ أَحْمَدُ: إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَهَيْتُهُ، وَآخُذُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: ”اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج، جحیفہ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- احمد کہتے ہیں: اگر مجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تو میں نہیں دوں گا اور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ البیوع 39 (3422)، سنن ابن ماجہ/التجارات 10 (2166)، (تحفة الأشراف: 11238)، و موطا امام مالک/الاستئذان 10 (28مرسلا) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیا اور غیر شریفانہ عمل ہے، جہاں تک اس کے جواز کا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیسا کہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے، جمہور اسی کے قائل ہیں اور ممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2166)، أحاديث البيوع