معقل بن یسار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب نے نعمان بن مقرن رضی الله عنہ کو ہرمز ان کے پاس بھیجا، پھر انہوں نے مکمل حدیث بیان کی، نعمان بن مقرن رضی الله عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (کسی غزوہ میں) حاضر ہوا، جب آپ دن کے شروع حصہ میں نہیں لڑتے تو انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا، ہوا چلنے لگتی اور نصرت الٰہی کا نزول ہوتا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن النعمان بن مقرن، قال: " غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم، فكان إذا طلع الفجر، امسك حتى تطلع الشمس، فإذا طلعت، قاتل، فإذا انتصف النهار، امسك حتى تزول الشمس، فإذا زالت الشمس، قاتل حتى العصر، ثم امسك حتى يصلي العصر، ثم يقاتل، قال: وكان يقال: عند ذلك تهيج رياح النصر، ويدعو المؤمنون لجيوشهم في صلاتهم "، قال ابو عيسى: وقد روي هذا الحديث عن النعمان بن مقرن بإسناد اوصل من هذا، وقتادة لم يدرك النعمان بن مقرن، ومات النعمان بن مقرن في خلافة عمر بن الخطاب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ، قَالَ: " غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، أَمْسَكَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ، قَاتَلَ، فَإِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ، أَمْسَكَ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، قَاتَلَ حَتَّى الْعَصْرِ، ثُمَّ أَمْسَكَ حَتَّى يُصَلِّيَ الْعَصْرَ، ثُمَّ يُقَاتِلُ، قَالَ: وَكَانَ يُقَالُ: عِنْدَ ذَلِكَ تَهِيجُ رِيَاحُ النَّصْرِ، وَيَدْعُو الْمُؤْمِنُونَ لِجُيُوشِهِمْ فِي صَلَاتِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ بِإِسْنَادٍ أَوْصَلَ مِنْ هَذَا، وَقَتَادَةُ لَمْ يُدْرِكْ النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ، وَمَاتَ النُّعْمَانُ بْنُ مُقَرِّنٍ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
نعمان بن مقرن رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا، جب فجر طلوع ہوتی تو آپ (قتال سے) ٹھہر جاتے یہاں تک کہ سورج نکل جاتا، جب سورج نکل جاتا تو آپ جہاد میں لگ جاتے، پھر جب دوپہر ہوتی آپ رک جاتے یہاں تک کہ سورج ڈھل جاتا، جب سورج ڈھل جاتا تو آپ عصر تک جہاد کرتے، پھر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ عصر پڑھ لیتے، پھر جہاد (شروع) کرتے۔ کہا جاتا تھا کہ اس وقت نصرت الٰہی کی ہوا چلتی ہے اور مومن اپنے مجاہدین کے لیے نماز میں دعائیں کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: نعمان بن مقرن رضی الله عنہ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے جو موصول ہے، قتادہ کی ملاقات نعمان سے نہیں ہے، نعمان بن مقرن کی وفات عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف وانظر الحدیث الآتي (تحفة الأشراف: 11649)، (ضعیف الإسناد) (قتادہ کی نعمان بن مقرن رضی الله عنہ سے لقاء نہیں اس لیے اس سند میں انقطاع ہے، اگلی سند سے یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (3934 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (1612) إسناده ضعيف قتاده مدلس وعنعن (تقدم: 30) والحديث الأتي (الأصل: 1613) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو داود، حدثنا السكن بن المغيرة ويكنى ابا محمد مولى لآل عثمان، حدثنا الوليد بن ابي هشام، عن فرقد ابي طلحة، عن عبد الرحمن بن خباب، قال: شهدت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحث على جيش العسرة، فقام عثمان بن عفان فقال: يا رسول الله علي مائة بعير باحلاسها واقتابها في سبيل الله، ثم حض على الجيش، فقام عثمان بن عفان , فقال: يا رسول الله علي مائتا بعير باحلاسها , واقتابها في سبيل الله، ثم حض على الجيش، فقام عثمان بن عفان فقال: يا رسول الله علي ثلاث مائة بعير باحلاسها , واقتابها في سبيل الله، فانا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عن المنبر وهو يقول: " ما على عثمان ما عمل بعد هذه ما على عثمان ما عمل بعد هذه ". قال ابو عيسى: هذا غريب هذا الوجه لا نعرفه إلا من حديث السكن بن المغيرة، وفي الباب عن عبد الرحمن بن سمرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ الْمُغِيرَةِ وَيُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلًى لِآلِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ فَرْقَدٍ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَبَّابٍ، قَالَ: شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَحُثُّ عَلَى جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَةُ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ مِائَتَا بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا , وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَى الْجَيْشِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيَّ ثَلَاثُ مِائَةِ بَعِيرٍ بِأَحْلَاسِهَا , وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُولُ: " مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ مَا عَلَى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ السَّكَنِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ.
عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ جیش عسرہ (غزوہ تبوک) کے سامان کی لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے، تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اس کی ترغیب دلائی، تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، آپ نے پھر اسی کی ترغیب دی تو عثمان پھر کھڑے ہوئے اور بولے اللہ کے رسول! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں تین سو اونٹ ہیں مع ساز و سامان کے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ منبر سے یہ کہتے ہوئے اتر رہے تھے کہ ”اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں، اب عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں جو بھی کریں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف سکن بن مغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔