(مرفوع) حدثنا نصر بن علي , وهناد , وابو عمار , قالوا: حدثنا عيسى بن يونس , عن مجالد , عن الشعبي، عن عدي بن حاتم , قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد البازي , فقال: " ما امسك عليك فكل " , قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث مجالد , عن الشعبي , والعمل على هذا عند اهل العلم , لا يرون بصيد البزاة والصقور باسا , وقال مجاهد: البزاة هو: الطير الذي يصاد به من الجوارح التي قال الله تعالى وما علمتم من الجوارح سورة المائدة آية 4 فسر الكلاب والطير الذي يصاد به , وقد رخص بعض اهل العلم في صيد البازي , وإن اكل منه , وقالوا: إنما تعليمه إجابته , وكرهه بعضهم , والفقهاء اكثرهم قالوا: ياكل وإن اكل منه.(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , وَهَنَّادٌ , وَأَبُو عَمَّارٍ , قَالُوا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْبَازِي , فَقَالَ: " مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , لَا يَرَوْنَ بِصَيْدِ الْبُزَاةِ وَالصُّقُورِ بَأْسًا , وقَالَ مُجَاهِدٌ: الْبُزَاةُ هُوَ: الطَّيْرُ الَّذِي يُصَادُ بِهِ مِنَ الْجَوَارِحِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ سورة المائدة آية 4 فَسَّرَ الْكِلَابَ وَالطَّيْرَ الَّذِي يُصَادُ بِهِ , وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي صَيْدِ الْبَازِي , وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ , وَقَالُوا: إِنَّمَا تَعْلِيمُهُ إِجَابَتُهُ , وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ , وَالْفُقَهَاءُ أَكْثَرُهُمْ قَالُوا: يَأْكُلُ وَإِنْ أَكَلَ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا؟ تو آپ نے فرمایا: ”وہ تمہارے لیے جو روک رکھے اسے کھاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند «عن مجالد عن الشعبي» سے جانتے ہیں۔ ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ باز اور شکرے کے شکار میں مضائقہ نہیں سمجھتے، ۳- مجاہد کہتے ہیں: باز وہ پرندہ ہے جس سے شکار کیا جاتا ہے، یہ اس «جوارح» میں داخل ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ «وما علمتم من الجوارح» میں کیا ہے انہوں نے «جوارح» کی تفسیر کتے اور اس پرندے سے کی ہے جن سے شکار کیا جاتا ہے، ۴- بعض اہل علم نے باز کے شکار کی رخصت دی ہے اگرچہ وہ شکار میں سے کچھ کھا لے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار کے لیے چھوڑا جائے تو وہ حکم قبول کرے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے مکروہ کہا ہے، لیکن اکثر فقہاء کہتے ہیں: باز کا شکار کھایا جائے گا چاہے وہ شکار کا کچھ حصہ کھا لے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا الحجاج , عن مكحول، عن ابي ثعلبة. ح والحجاج , عن الوليد بن ابي مالك , عن عائذ الله بن عبد الله , انه سمع ابا ثعلبة الخشني , قال: قلت: يا رسول الله , إنا اهل صيد , قال: " إذا ارسلت كلبك , وذكرت اسم الله عليه , فامسك عليك فكل " , قلت: وإن قتل , قال: " وإن قتل " , قلت: إنا اهل رمي قال: " ما ردت عليك قوسك فكل " , قال: قلت: إنا اهل سفر نمر باليهود , والنصارى , والمجوس , فلا نجد غير آنيتهم , قال: " فإن لم تجدوا غيرها , فاغسلوها بالماء , ثم كلوا فيها , واشربوا " , قال: وفي الباب , عن عدي بن حاتم , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وعائذ الله بن عبد الله هو: ابو إدريس الخولاني , واسم ابي ثعلبة الخشني: جرثوم , ويقال: جرثم بن ناشب , ويقال: ابن قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ , عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ. ح وَالْحَجَّاجُ , عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ عَائِذِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ , قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ , وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ , فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ " , قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلَ " , قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ رَمْيٍ قَالَ: " مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ " , قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى , وَالْمَجُوسِ , فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ , قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا , فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ , ثُمَّ كُلُوا فِيهَا , وَاشْرَبُوا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَعَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: جُرْثُومٌ , وَيُقَالُ: جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ قَيْسٍ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں؟ (شکار کے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: ”جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا: ”اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟) آپ نے فرمایا: ”تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ“، میں نے عرض کیا: ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیں؟) آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کے علاوہ کوئی برتن نہ پاس کو تو اسے پانی سے دھو لو پھر اس میں کھاؤ پیو“۱؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے، انہیں جرثم بن ناشب اور جرثم بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 4 (5478)، و 10 (5488)، و 14 (5496)، صحیح مسلم/الصید 1 (1930)، و 2 (1931)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2855)، سنن النسائی/الصید 4 (4271)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3207)، (تحفة الأشراف: 11875)، و مسند احمد (4/193، 194، 195) ویأتي في السیر11 (1560)، وفي الأطعمة 7 (6971) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا قبيصة , عن سفيان , عن منصور , عن إبراهيم , عن همام بن الحارث , عن عدي بن حاتم , قال: قلت: يا رسول الله , إنا نرسل كلابا لنا معلمة , قال: " كل ما امسكن عليك " , قلت: يا رسول الله , وإن قتلن , قال: " وإن قتلن , ما لم يشركها كلب غيرها " , قال: قلت: يا رسول الله , إنا نرمي بالمعراض , قال: " ما خزق فكل , وما اصاب بعرضه فلا تاكل " , حدثنا محمد بن يحيى , حدثنا محمد بن يوسف , حدثنا سفيان , عن منصور , نحوه، إلا انه قال: وسئل عن المعراض , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً , قَالَ: " كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ " , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَإِنْ قَتَلْنَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلْنَ , مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا " , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ , قَالَ: " مَا خَزَقَ فَكُلْ , وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ " , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْمِعْرَاضِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: ”وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو“، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض»(ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: ”جو (ہتھیار کی نوک سے) پھٹ جائے اسے کھاؤ اور جو اس کے عرض (بغیر دھاردار حصے یعنی چوڑان) سے مر جائے اسے مت کھاؤ۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے، مگر اس میں ہے «وسئل عن المعراض»”یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھا گیا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 33 (175)، والبیوع 3 (2054)، والصید 1 (5475)، و3 (5476)، و3 (5477)، و 7 (5483)، و 8 (5484)، و 9 (5486)، و 10 (5487)، صحیح مسلم/الصید 1 (1929)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2847)، سنن النسائی/الصید 1 (4268)، و2 (4269)، و 3 (4270)، و 8 (4279)، و 21 (4310)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3208)، و 5 (3212)، و 6 3213)، و 7 (3215)، (تحفة الأشراف: 9878)، و مسند احمد (4/256)، 257، 258، 377، 380)، سنن الدارمی/الصید 1 (2045) ویأتي بأرقام (1467-1471) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔ اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے: (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔ (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔ (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔ (۵) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا اور یہ شکار حلال نہ ہو گا۔ (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3208 و 3212 و 3214 و 3215)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة , عن ابي بشر، قال: سمعت سعيد بن جبير يحدث , عن عدي بن حاتم , قال: قلت: يا رسول الله , ارمي الصيد فاجد فيه من الغد سهمي , قال: " إذا علمت ان سهمك قتله ولم تر فيه اثر سبع فكل " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم , وروى شعبة هذا الحديث , عن ابي بشر , وعبد الملك بن ميسرة , عن سعيد بن جبير , عن عدي بن حاتم مثله , وكلا الحديثين صحيح , وفي الباب , عن ابي ثعلبة الخشني.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ يُحَدِّثُ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيهِ مِنَ الْغَدِ سَهْمِي , قَالَ: " إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ , وَعَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ مِثْلَهُ , وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ , وَفِي الْبَاب , عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں شکار کو تیر مارتا ہوں پھر اگلے دن اس میں اپنا تیر پاتا ہوں (اس شکار کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: ”جب تمہیں معلوم ہو جائے کہ تمہارے ہی تیر نے شکار کو مارا ہے اور تم اس میں کسی اور درندے کا اثر نہ دیکھو تو اسے کھاؤ“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے یہ حدیث ابوبشر سے اور عبدالملک بن میسرہ نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے عدی بن حاتم سے روایت کی ہے، دونوں روایتیں صحیح ہیں، ۳- اس باب میں ابوثعلبہ خشنی سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9854) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ اس شکار پر تیر کے علاوہ اگر کسی دوسری چیز کا بھی اثر ہے جس سے اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی موت اس دوسرے اثر سے ہوئی ہو تو ایسا شکار حلال نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا عبد الله بن المبارك , اخبرني عاصم الاحول , عن الشعبي، عن عدي بن حاتم , قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصيد , فقال: " إذا رميت بسهمك فاذكر اسم الله , فإن وجدته قد قتل فكل , إلا ان تجده قد وقع في ماء , فلا تاكل , فإنك لا تدري الماء قتله او سهمك " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنِي عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّيْدِ , فَقَالَ: " إِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ فَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ , فَإِنْ وَجَدْتَهُ قَدْ قُتِلَ فَكُلْ , إِلَّا أَنْ تَجِدَهُ قَدْ وَقَعَ فِي مَاءٍ , فَلَا تَأْكُلْ , فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي الْمَاءُ قَتَلَهُ أَوْ سَهْمُكَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”تم اپنا تیر پھینکتے وقت اس پر اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھو، پھر اگر اسے مرا ہوا پاؤ تو بھی کھا لو، سوائے اس کے کہ اسے پانی میں گرا ہوا پاؤ تو نہ کھاؤ اس لیے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ پانی نے اسے مارا ہے یا تمہارے تیر نے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9862) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اگر تیر کی مار کھانے کے بعد یہ شکار تیر کے سبب پانی میں گرا ہو پھر شکاری نے اسے پکڑ لیا ہو تو یہ حلال ہے، کیونکہ اب اس کا شبہ نہیں رہا کہ وہ پانی میں ڈوب کر مرا ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان , عن مجالد , عن الشعبي , عن عدي بن حاتم , قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيد الكلب المعلم , قال: " إذا ارسلت كلبك المعلم , وذكرت اسم الله , فكل ما امسك عليك , فإن اكل فلا تاكل فإنما امسك على نفسه " , قلت: يا رسول الله , ارايت إن خالطت كلابنا كلاب اخر , قال: " إنما ذكرت اسم الله على كلبك , ولم تذكر على غيره " , قال سفيان: اكره له اكله , قال ابو عيسى: والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , في الصيد والذبيحة , إذا وقعا في الماء ان لا ياكل , فقال بعضهم في الذبيحة: إذا قطع الحلقوم , فوقع في الماء فمات فيه , فإنه يؤكل , وهو قول عبد الله بن المبارك , وقد اختلف اهل العلم في الكلب إذا اكل من الصيد , فقال اكثر اهل العلم: إذا اكل الكلب منه فلا تاكل , وهو قول سفيان , وعبد الله بن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق , ورخص بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم , في الاكل منه , وإن اكل الكلب منه.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مُجَالِدٍ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْكَلْبِ الْمُعَلَّمِ , قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُعَلَّمَ , وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ , فَكُلْ مَا أَمْسَكَ عَلَيْكَ , فَإِنْ أَكَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ " , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ إِنْ خَالَطَتْ كِلَابَنَا كِلَابٌ أُخَرُ , قَالَ: " إِنَّمَا ذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَى كَلْبِكَ , وَلَمْ تَذْكُرْ عَلَى غَيْرِهِ " , قَالَ سُفْيَانُ: أَكْرَهُ لَهُ أَكْلَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الصَّيْدِ وَالذَّبِيحَةِ , إِذَا وَقَعَا فِي الْمَاءِ أَنْ لَا يَأْكُلَ , فَقَالَ بَعْضُهُمْ فِي الذَّبِيحَةِ: إِذَا قُطِعَ الْحُلْقُومُ , فَوَقَعَ فِي الْمَاءِ فَمَاتَ فِيهِ , فَإِنَّهُ يُؤْكَلُ , وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْكَلْبِ إِذَا أَكَلَ مِنَ الصَّيْدِ , فَقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ فَلَا تَأْكُلْ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيِّ , وَأَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ , فِي الْأَكْلِ مِنْهُ , وَإِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ مِنْهُ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سدھائے ہوئے کتے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو، اور (بھیجتے وقت اس پر) اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) پڑھ لو تو تمہارے لیے جو کچھ وہ روک رکھے اسے کھاؤ اور اگر وہ شکار سے کچھ کھا لے تو مت کھاؤ، اس لیے کہ اس نے شکار اپنے لیے روکا ہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کا کیا خیال ہے اگر ہمارے کتے کے ساتھ دوسرے کتے شریک ہو جائیں؟“ آپ نے فرمایا: ”تم نے اللہ کا نام (یعنی بسم اللہ) اپنے ہی کتے پر پڑھا ہے دوسرے کتے پر نہیں“۔ سفیان (ثوری) کہتے ہیں: آپ نے اس کے لیے اس کا کھانا درست نہیں سمجھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ذبیحہ اور شکار کے سلسلے میں صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جب وہ پانی میں گر جائیں تو انہیں کوئی نہ کھائے اور بعض لوگ ذبیحہ کے بارے میں کہتے ہیں: جب اس کا گلا کاٹ دیا جائے، پھر پانی میں گرے اور مر جائے تو اسے کھایا جائے گا، عبداللہ بن مبارک کا یہی قول ہے، ۲- اہل علم کا اس مسئلہ میں کہ جب کتا شکار کا کچھ حصہ کھا لے اختلاف ہے، اکثر اہل علم کہتے ہیں: جب کتا شکار سے کھا لے تو اسے مت کھاؤ، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۳- جب کہ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور دوسرے لوگوں نے کھانے کی رخصت دی ہے، اگرچہ اس میں سے کتے نے کھا لیا ہو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9866) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ بسم اللہ تم نے صرف اپنے کتے پر پڑھا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ نے ایسے کتے کا شکار جس کے ساتھ دوسرے کتے شریک رہے ہوں کھانا درست نہیں سمجھا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2538 و 2543)، الإرواء (2546)
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى , حدثنا وكيع , حدثنا زكريا , عن الشعبي، عن عدي بن حاتم , قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن صيد المعراض , فقال: " ما اصبت بحده فكل , وما اصبت بعرضه فهو وقيذ " , حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان , عن زكريا , عن الشعبي , عن عدي بن حاتم , عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح , والعمل عليه عند اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى , حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَيْدِ الْمِعْرَاضِ , فَقَالَ: " مَا أَصَبْتَ بِحَدِّهِ فَكُلْ , وَمَا أَصَبْتَ بِعَرْضِهِ فَهُوَ وَقِيذٌ " , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ زَكَرِيَّا , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغیر پر کے تیر کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”جسے تم نے دھار سے مارا ہے اسے کھاؤ اور جسے عرض (بغیر دھاردار حصہ یعنی چوڑان) سے مارا ہے تو وہ «وقيذ» ہے ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1465 (تحفة الأشراف: 9860) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «وقیذ»: وہ شکار ہے جسے لاٹھی، پتھر اور ایسے ہتھیار سے مارا جائے جو دھار والے نہ ہوں، حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب شکار کے لیے تیر اور اسی جیسے دوسرے دھار دار ہتھیار کا استعمال ہو تو یہ شکار حلال ہے اور اگر چوڑان سے ہو تو حلال نہیں۔
(مرفوع) حدثنا علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا عبيد الله بن محمد العيشي، حدثنا حماد بن سلمة، عن ايوب، وقتادة، عن ابي قلابة، عن ابي اسماء الرحبي، عن ابي ثعلبة الخشني انه قال: يا رسول الله إنا بارض اهل الكتاب فنطبخ في قدورهم ونشرب في آنيتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن لم تجدوا غيرها فارحضوها بالماء "، ثم قال: يا رسول الله إنا بارض صيد فكيف نصنع قال: " إذا ارسلت كلبك المكلب وذكرت اسم الله فقتل فكل وإن كان غير مكلب فذكي فكل وإذا رميت بسهمك وذكرت اسم الله فقتل فكل "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَيْشِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ أَهْلِ الْكِتَابِ فَنَطْبُخُ فِي قُدُورِهِمْ وَنَشْرَبُ فِي آنِيَتِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا فَارْحَضُوهَا بِالْمَاءِ "، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا بِأَرْضِ صَيْدٍ فَكَيْفَ نَصْنَعُ قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ الْمُكَلَّبَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَقَتَلَ فَكُلْ وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُكَلَّبٍ فَذُكِّيَ فَكُلْ وَإِذَا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ فَقَتَلَ فَكُلْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سوال کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اہل کتاب کی سر زمین میں رہتے ہیں، کیا ہم ان کی ہانڈیوں میں کھانا پکائیں اور ان کے برتنوں میں پانی پئیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہیں اس کے علاوہ کوئی برتن نہ مل سکے تو اسے پانی سے دھو لو“، پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم شکار والی سر زمین میں رہتے ہیں کیسے کریں؟ آپ نے فرمایا: ”جب تم اپنا سدھایا ہوا کتا روانہ کرو اور اس پر «بسم اللہ» پڑھ لو پھر وہ شکار مار ڈالے تو اسے کھاؤ، اور اگر کتا سدھایا ہوا نہ ہو اور شکار ذبح کر دیا جائے تو اسے کھاؤ اور جب تم تیر مارو اور اس پر «بسم اللہ» پڑھ لو پھر اس سے شکار ہو جائے تو اسے کھاؤ“۔