(مرفوع) حدثنا هناد , حدثنا شريك , عن سماك بن حرب , عن جابر بن سمرة , " ان النبي صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا ويهودية ". قال: وفي الباب , عن ابن عمر , والبراء , وجابر , وابن ابي اوفى , وعبد الله بن الحارث بن جزء , وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث جابر بن سمرة حديث حسن غريب , والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم , قالوا: إذا اختصم اهل الكتاب , وترافعوا إلى حكام المسلمين , حكموا بينهم بالكتاب والسنة وباحكام المسلمين , وهو قول: احمد , وإسحاق , وقال بعضهم: لا يقام عليهم الحد في الزنا , والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ , " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , وَالْبَرَاءِ , وَجَابِرٍ , وَابْنِ أَبِي أَوْفَى , وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ , قَالُوا: إِذَا اخْتَصَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ , وَتَرَافَعُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ , حَكَمُوا بَيْنَهُمْ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِأَحْكَامِ الْمُسْلِمِينَ , وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ , وَإِسْحَاق , وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُقَامُ عَلَيْهِمُ الْحَدُّ فِي الزِّنَا , وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، براء، جابر، ابن ابی اوفی، عبداللہ بن حارث بن جزء اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں: جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اور مسلم حکمرانوں کے پاس اپنا مقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت اور مسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۴- بعض لوگ کہتے ہیں: اہل کتاب پر زنا کی حد نہ قائم کی جائے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الحدود 10 (2557)، (تحفة الأشراف: 2175) (صحیح) (سند میں ”شریک القاضی“ حافظے کے کمزور ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ یہ قول اس باب کی احادیث کے مطابق ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري , حدثنا معن , حدثنا مالك بن انس , عن نافع , عن ابن عمر , " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رجم يهوديا ويهودية ". قال ابو عيسى: وفي الحديث قصة , وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ , حَدَّثَنَا مَعْنٌ , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ , وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکر ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے: یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا، اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا: اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے، ان لوگوں نے کہا: کوڑے کی سزا ہے، یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیا جانا ہے، عبداللہ بن سلام نے کہا: تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو، اس میں بھی رجم کا حکم ہے، چنانچہ توراۃ طلب کی گئی، اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ما قبل اور بعد کی آیات پڑھیں، پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔