عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت و قباحت واضح ہوتی ہے، ایک تو ایسے شخص کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے، دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیر کیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا هارون بن إسحاق الهمداني، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، عن عمر: انه حمل على فرس في سبيل الله ثم رآها تباع فاراد ان يشتريها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تعد في صدقتك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ: أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ رَآهَا تُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کو ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے تو اسے خریدنا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا صدقہ واپس نہ لو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 100 (2617)، (تحفة الأشراف: 10526)، وأخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 59 (1490)، والہبة 30 (2623)، و37 (2636)، والوصایا 31 (2775)، والجہاد 119 (2970)، و137 (3003)، صحیح مسلم/الہبات 1 (1620)، سنن النسائی/الزکاة 100 (2616)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 1 (2390)، موطا امام مالک/الزکاة 26 (49)، مسند احمد (1/40، 54)، من غیر ہذا الطریق کما أخرجہ صحیح البخاری/الزکاة 59 (1489)، وسنن النسائی/الزکاة 100 (2618)، من مسند عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کیونکہ صدقہ دے کر واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے، ظاہر حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے اپنے دیئے ہوئے صدقے کے خریدنے کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور نے اسے کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے کیونکہ فی نفسہ اس میں کوئی قباحت نہیں، قباحت دوسرے کی وجہ سے ہے کیونکہ بسا اوقات صدقہ دینے والا لینے والے سے جب اپنا صدقہ خریدتا ہے تو اس کے اس احسان کی وجہ سے جو صدقہ دے کر اس نے اس پر کیا تھا وہ قیمت میں رعایت سے کام لیتا ہے، نیز بظاہر یہ حدیث ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث «لا تحل الصدقة إلا لخمسة لعامل عليها اورجل اشتراها بما … الحديث» کے معارض ہے، تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ عمر رضی الله عنہ والی حدیث کراہت تنزیہی پر محمول کی جائے گی اور ابوسعید رضی الله عنہ والی روایت بیان جواز پر، یا عمر رضی الله عنہ کی روایت نفل صدقے کے سلسلہ میں ہے اور ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت فرض صدقے کے بارے میں ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، حدثنا حسين المكتب، عن عمرو بن شعيب، عن طاوس، عن ابن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " مثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها، كالكلب اكل حتى إذا شبع قاء، ثم عاد فرجع في قيئه "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عباس، وعبد الله بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُكَتِبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا، كَالْكَلْبِ أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ، ثُمَّ عَادَ فَرَجَعَ فِي قَيْئِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہدیہ دے کر پھر واپس لے لے اس کی مثال اس کتے کی طرح ہے جو کھاتا رہے یہاں تک کہ جب وہ آسودہ ہو جائے تو قے کرے، پھر اسے چاٹ لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عباس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔