سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
91. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْتَدْفِئُ بِالْمَرْأَةِ بَعْدَ الْغُسْلِ
91. باب: غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About The Man Who Seeks The Warmth Of A Woman After Performing Ghusl
حدیث نمبر: 123
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن حريث، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت: " ربما اغتسل النبي صلى الله عليه وسلم من الجنابة، ثم جاء فاستدفا بي فضممته إلي ولم اغتسل ". قال ابو عيسى: هذا ليس بإسناده باس، وهو قول غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي والتابعين: ان الرجل إذا اغتسل فلا باس بان يستدفئ بامراته وينام معها قبل ان تغتسل المراة، وبه يقول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حُرَيْثٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " رُبَّمَا اغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَدْفَأَ بِي فَضَمَمْتُهُ إِلَيَّ وَلَمْ أَغْتَسِلْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ وَالتَّابِعِينَ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا اغْتَسَلَ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَسْتَدْفِئَ بِامْرَأَتِهِ وَيَنَامَ مَعَهَا قَبْلَ أَنْ تَغْتَسِلَ الْمَرْأَةُ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ۱؎،
۲- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم کا یہی قول ہے کہ مرد جب غسل کر لے تو اپنی بیوی سے چمٹ کر گرمی حاصل کرنے میں اسے کوئی مضائقہ نہیں، وہ عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس کے ساتھ (چمٹ کر) سو سکتا ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطہارة 97 (580)، (تحفة الأشراف: 17620) (ضعیف) (سند میں حریث ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے، اس کے راوی «حریث بن ابی المطر» ضعیف ہیں (جیسا کہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ابوداؤد اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے، جو عبدالرحمٰن افریقی کے طریق سے ہے، عبدالرحمٰن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں، لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتا ہے، نیز صحیحین میں عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے، وہ یہ ہے: ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے، پھر ہم سے چمٹتے تھے واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (580)، //، المشكاة (459)، ضعيف سنن ابن ماجة (128) //

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / جه 580
حريث بن أبي مطر: ضعیف كما في التقريب (1182)
حدیث نمبر: 104
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يغتسل من الجنابة بدا فغسل يديه قبل ان يدخلهما الإناء، ثم غسل فرجه ويتوضا وضوءه للصلاة، ثم يشرب شعره الماء، ثم يحثي على راسه ثلاث حثيات ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وهو الذي اختاره اهل العلم في الغسل من الجنابة، انه يتوضا وضوءه للصلاة، ثم يفرغ على راسه ثلاث مرات، ثم يفيض الماء على سائر جسده، ثم يغسل قدميه , والعمل على هذا عند اهل العلم، وقالوا: إن انغمس الجنب في الماء ولم يتوضا اجزاه، وهو قول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ مِنَ الْجَنَابَةِ بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُدْخِلَهُمَا الْإِنَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ وَيَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُشَرِّبُ شَعْرَهُ الْمَاءَ، ثُمَّ يَحْثِي عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، أَنَّهُ يَتَوَضَّأُ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ يَغْسِلُ قَدَمَيْهِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَالُوا: إِنِ انْغَمَسَ الْجُنُبُ فِي الْمَاءِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ أَجْزَأَهُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم جب غسل جنابت کا ارادہ کرتے تو ہاتھوں کو برتن میں داخل کرنے سے پہلے دھوتے، پھر شرمگاہ دھوتے، اور اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر بال پانی سے بھگوتے، پھر اپنے سر پر تین لپ پانی ڈالتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی کو اہل علم نے غسل جنابت میں اختیار کیا ہے کہ وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے، پھر اپنے سر پر تین بار پانی ڈالے، پھر اپنے پورے بدن پر پانی بہائے، پھر اپنے پاؤں دھوئے، اہل علم کا اسی پر عمل ہے، نیز ان لوگوں نے کہا کہ اگر جنبی پانی میں غوطہٰ مارے اور وضو نہ کرے تو یہ اسے کافی ہو گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الغسل1 (248)، و9 (262)، و15 (272)، صحیح مسلم/الحیض 9 (316)، سنن ابی داود/ الطہارة 98 (242)، سنن النسائی/الطہارة 156 (248)، و157 (249، 250)، والغسل 16 (420)، و19 (423)، (تحفة الأشراف: 16935)، موطا امام مالک/الطہارة17 (67)، مسند احمد (6/52، 101)، ہذا من طریق عروة عنہا، ولہ طرق عنہا، انظر: صحیح البخاری/الغسل 6 (258)، صحیح مسلم/الحیض 9 (318)، و10 (320، 321)، سنن ابی داود/ الطہارة 98 (240)، سنن النسائی/الطہارة 152 (244)، و253، و154 (246)، و155 (247)، والغسل 19 (424)، مسند احمد (6/143، 161، 173) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (132)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.