سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
43. باب مَا جَاءَ فِي الزَّوْجَيْنِ الْمُشْرِكَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا
43. باب: اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟
Chapter: What Has Been Related About A Married Couple Who Are Idolaters, Then One Of Them Accepted Islam
حدیث نمبر: 1144
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا إسرائيل، عن سماك بن حرب، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان رجلا جاء مسلما على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، ثم جاءت امراته مسلمة، فقال: يا رسول الله، إنها كانت اسلمت معي فردها علي، " فردها عليه "، هذا حديث صحيح، سمعت عبد بن حميد، يقول: سمعت يزيد بن هارون يذكر، عن محمد بن إسحاق هذا الحديث، وحديث الحجاج، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " رد ابنته زينب على ابي العاصي بمهر جديد، ونكاح جديد "، قال يزيد بن هارون، حديث ابن عباس، اجود إسنادا والعمل على حديث، عمرو بن شعيب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ مُسْلِمًا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَتِ امْرَأَتُهُ مُسْلِمَةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا كَانَتْ أَسْلَمَتْ مَعِي فَرُدَّهَا عَلَيَّ، " فَرَدَّهَا عَلَيْهِ "، هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، سَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ يَذْكُرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ الْحَجَّاجِ، عنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عنْ أَبِيهِ، عنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَدَّ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بِمَهْرٍ جَدِيدٍ، وَنِكَاحٍ جَدِيدٍ "، قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَجْوَدُ إِسْنَادًا وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ، عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو کر آیا پھر اس کی بیوی بھی مسلمان ہو کر آ گئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس نے میرے ساتھ اسلام قبول کیا تھا۔ تو آپ اسے مجھے واپس دے دیجئیے۔ تو آپ نے اسے اسی کو واپس دے دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- حجاج نے یہ حدیث بطریق «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص کے ہاں نئے مہر اور نئے نکاح کے ذریعے لوٹایا،
۳- یزید بن ہارون کہتے ہیں کہ ابن عباس کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے اچھی ہے لیکن عمل «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» کی حدیث پر ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 23 (2238)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2008)، (تحفة الأشراف: 6106) (ضعیف) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں شدید اضطراب ہے، الإرواء 1918، ضعیف سنن ابی داود، ط۔غراس رقم 387، سنن ترمذی مطبوعہ مکتبة المعارف میں پہلی سند بروایت یوسف بن عیسیٰ پر صحیح لکھا ہے، اور دوسری سند سمعت عبد بن حميد پر ضعیف لکھا ہے)۔»

وضاحت:
۱؎ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر کے ساتھ اسلام لے آئے تو وہ اس کے نکاح میں باقی رہے گی، یہ اجماعی مسئلہ ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (1918)، ضعيف أبي داود (387) // عندنا برقم (490 / 2238) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1144) إسناده ضعيف / د 2238، جه 2008
حدیث نمبر: 1143
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا يونس بن بكير، عن محمد بن إسحاق، قال: حدثني داود بن الحصين، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" رد النبي صلى الله عليه وسلم ابنته زينب على ابي العاصي بن الربيع، بعد ست سنين بالنكاح الاول ولم يحدث نكاحا". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس بإسناده باس ولكن لا نعرف وجه هذا الحديث، ولعله قد جاء هذا من قبل داود بن حصين، من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" رَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَتَهُ زَيْنَبَ عَلَى أَبِي الْعَاصِي بْنِ الرَّبِيعِ، بَعْدَ سِتِّ سِنِينَ بِالنِّكَاحِ الْأَوَّلِ وَلَمْ يُحْدِثْ نِكَاحًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ وَلَكِنْ لَا نَعْرِفُ وَجْهَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَلَعَلَّهُ قَدْ جَاءَ هَذَا مِنْ قِبَلِ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کی سند میں کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ہم اس حدیث میں نقد کی وجہ نہیں جانتے ہیں۔ شاید یہ چیز داود بن حصین کی جانب سے ان کے حفظ کی طرف سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 24 (2240)، سنن ابن ماجہ/النکاح 60 (2009)، (تحفة الأشراف: 6073) (صحیح) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ داود کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: احمد، ابوداؤد اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے دو سال بعد انہیں واپس کیا، اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد، حافظ ابن حجر نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے، اور دو اور تین سے مراد آیت کریمہ «لاهن حل لهم» کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جو دو سال اور چند مہینوں پر مشتمل۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2009)

قال الشيخ زبير على زئي: (1143) إسناده ضعيف / د 2240، جه 2009

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.