(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله، قال: تزوجت امراة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اتزوجت يا جابر؟ " فقلت: نعم، فقال: " بكرا ام ثيبا؟ " فقلت: لا بل ثيبا، فقال: " هلا جارية تلاعبها وتلاعبك "، فقلت: يا رسول الله إن عبد الله مات وترك سبع بنات او تسعا، فجئت بمن يقوم عليهن، قال: فدعا لي. قال: وفي الباب، عن ابي بن كعب، وكعب بن عجرة. قال ابو عيسى: حديث جابر بن عبد الله حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَتَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ؟ " فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: " بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ " فَقُلْتُ: لَا بَلْ ثَيِّبًا، فَقَالَ: " هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ "، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ مَاتَ وَتَرَكَ سَبْعَ بَنَاتٍ أَوْ تِسْعًا، فَجِئْتُ بِمَنْ يَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: فَدَعَا لِي. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَكَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے پوچھا: ”جابر! کیا تم نے شادی کی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں کی ہے، آپ نے فرمایا: ”کسی کنواری سے یا بیوہ سے؟“ میں نے کہا: نہیں، غیر کنواری سے۔ آپ نے فرمایا: ”کسی (کنواری) لڑکی سے شادی کیوں نہیں کی، تو اس سے کھیلتا اور وہ تجھ سے کھیلتی؟“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! (میرے والد) عبداللہ کا انتقال ہو گیا ہے، اور انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں، میں ایسی عورت کو بیاہ کر لایا ہوں جو ان کی دیکھ بھال کر سکے۔ چنانچہ آپ نے میرے لیے دعا فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابی بن کعب اور کعب بن عجرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا وكيع، عن زكريا، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله، " انه باع من النبي صلى الله عليه وسلم بعيرا، واشترط ظهره إلى اهله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه، عن جابر، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، يرون الشرط في البيع جائزا، إذا كان شرطا واحدا، وهو قول:، احمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم: لا يجوز الشرط في البيع ولا يتم البيع إذا كان فيه شرط.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّهُ بَاعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا، وَاشْتَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ الشَّرْطَ فِي الْبَيْعِ جَائِزًا، إِذَا كَانَ شَرْطًا وَاحِدًا، وَهُوَ قَوْلُ:، أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَا يَجُوزُ الشَّرْطُ فِي الْبَيْعِ وَلَا يَتِمُّ الْبَيْعُ إِذَا كَانَ فِيهِ شَرْطٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ بیع میں شرط کو جائز سمجھتے ہیں جب شرط ایک ہو۔ یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بیع میں شرط جائز نہیں ہے اور جب اس میں شرط ہو تو بیع تام نہیں ہو گی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 43 (2097)، والاستقراض 1 (2385)، و 18 (2406)، والمظالم 26 (2470)، والشروط4 (2718)، والجہاد 49 (2861)، و 113 (2967)، صحیح مسلم/البیوع 42 (المساقاة 21)، (215)، والرضاع 16 57 و 58)، سنن ابی داود/ البیوع 77 (4641)، سنن ابن ماجہ/التجارات 29 (2205)، (تحفہ الأشراف: 2341)، و مسند احمد (3/299) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگر جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں درست ہیں۔