سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
The Book of Agriculture
0. بَابُ : عِتْقٍ
0. باب: غلام کی آزادی کی دستاویز۔
Chapter: Manumission
حدیث نمبر: Q3971
Save to word مکررات اعراب
هذا كتاب كتبه فلان بن فلان طوعا في صحة منه وجواز امر وذلك في شهر كذا من سنة كذا لفتاه الرومي الذي يسمى فلانا وهو يومئذ في ملكه ويده إني اعتقتك تقربا إلى الله عز وجل وابتغاء لجزيل ثوابه عتقا بتا لا مثنوية فيه ولا رجعة لي عليك فانت حر لوجه الله والدار الآخرة لا سبيل لي ولا لاحد عليك إلا الولاء فإنه لي ولعصبتي من بعدي‏.‏‏
هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلاَنُ بْنُ فُلاَنٍ طَوْعًا فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرٍ وَذَلِكَ فِي شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا لِفَتَاهُ الرُّومِيِّ الَّذِي يُسَمَّى فُلاَنًا وَهُوَ يَوْمَئِذٍ فِي مِلْكِهِ وَيَدِهِ إِنِّي أَعْتَقْتُكَ تَقَرُّبًا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَابْتِغَاءً لِجَزِيلِ ثَوَابِهِ عِتْقًا بَتًّا لاَ مَثْنَوِيَّةَ فِيهِ وَلاَ رَجْعَةَ لِي عَلَيْكَ فَأَنْتَ حُرٌّ لِوَجْهِ اللَّهِ وَالدَّارِ الآخِرَةِ لاَ سَبِيلَ لِي وَلاَ لأَحَدٍ عَلَيْكَ إِلاَّ الْوَلاَءَ فَإِنَّهُ لِي وَلِعَصَبَتِي مِنْ بَعْدِي‏.‏‏
یہ وہ تحریر ہے جس کو فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے صحت اور تصرف نافذ ہونے کی حالت میں لکھا ہے، فلاں سال کے فلاں مہینے میں اپنے اس رومی غلام کے لیے جس کا نام فلاں ہے اور وہ آج تک اس کی ملکیت اور تصرف میں ہے کہ میں نے تم کو اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کا بڑا ثواب چاہنے کے لیے آزاد کیا، ایسی قطعی آزادی جو غیر مشروط ہے، میرے لیے رجوع کا کوئی حق باقی نہیں رہا، اب اللہ کے واسطے اور ثواب آخرت کے لیے تم آزاد ہو، اب میرا اور کسی کا بھی تم پر کوئی اختیار نہیں سوائے حق ولاء (وراثت) کے کیونکہ وہ میرا ہے اور میرے بعد میرے عصبات کا ہے۔

تخریج الحدیث: «t»

قال الشيخ زبير على زئي:
حدیث نمبر: 3396
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني عبيد الله بن سعد بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا عمي، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان عائشة، قالت: ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم , إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاستاذنت عليه وهو مضطجع معي في مرطي، فاذن لها، فقالت: يا رسول الله , إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة , وانا ساكتة، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اي بنية , الست تحبين من احب؟". قالت: بلى. قال:" فاحبي هذه". فقامت فاطمة حين سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فرجعت إلى ازواج النبي صلى الله عليه وسلم , فاخبرتهن بالذي قالت والذي قال لها، فقلن لها: ما نراك اغنيت عنا من شيء , فارجعي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقولي له: إن ازواجك ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة. قالت فاطمة: لا والله , لا اكلمه فيها ابدا. قالت عائشة: فارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي التي كانت تساميني من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم في المنزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولم ار امراة قط خيرا في الدين من زينب , واتقى لله عز وجل , واصدق حديثا , واوصل للرحم , واعظم صدقة , واشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به , وتقرب به ما عدا سورة من حدة كانت فيها تسرع منها الفيئة , فاستاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم , ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع عائشة في مرطها على الحال التي كانت دخلت فاطمة عليها , فاذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , إن ازواجك ارسلنني يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة , ووقعت بي فاستطالت , وانا ارقب رسول الله صلى الله عليه وسلم , وارقب طرفه هل اذن لي فيها فلم تبرح زينب حتى عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكره ان انتصر , فلما وقعت بها لم انشبها بشيء حتى انحيت عليها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنها ابنة ابي بكر".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمِّي، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ , وَأَنَا سَاكِتَةٌ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْ بُنَيَّةُ , أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَنْ أُحِبُّ؟". قَالَتْ: بَلَى. قَالَ:" فَأَحِبِّي هَذِهِ". فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي قَالَتْ وَالَّذِي قَالَ لَهَا، فَقُلْنَ لَهَا: مَا نَرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْءٍ , فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ. قَالَتْ فَاطِمَةُ: لَا وَاللَّهِ , لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ , وَأَتْقَى لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَأَصْدَقَ حَدِيثًا , وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ , وَأَعْظَمَ صَدَقَةً , وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ , وَتَقَرَّبُ بِهِ مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالِ الَّتِي كَانَتْ دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا , فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ , وَوَقَعَتْ بِي فَاسْتَطَالَتْ , وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ هَلْ أَذِنَ لِي فِيهَا فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ , فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا بِشَيْءٍ حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، انہوں نے آپ سے اجازت طلب کی، آپ میرے ساتھ چادر میں لیٹے ہوئے تھے، آپ نے انہیں اجازت دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے ۱؎ عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، اور میں خاموش ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے میری بیٹی! کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے مجھے محبت ہے؟ وہ بولیں: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان سے محبت کرو، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ بات سنی تو اٹھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی اور جو آپ نے ان (فاطمہ) سے کہی۔ وہ سب بولیں: ہم نہیں سمجھتے کہ تم نے ہمارا کام کر دیا، تم پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: آپ کی بیویاں آپ سے ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے عدل کی اپیل کرتی ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زینب بنت جحش کو بھیجا اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی، صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھی سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہو جاتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ چادر میں اسی طرح تھے کہ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، وہ بولیں: اللہ کے رسول! آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں اور خوب زبان درازی کی، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں، زینب رضی اللہ عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا نہیں لگے گا۔ چنانچہ جب میں نے انہیں برا بھلا کہا تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 8 (2581)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 13 (2442)، (تحفة الأشراف: 17590)، مسند احمد (6/88، 150) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی قلبی محبت میں تمام ازواج مطہرات برابر ہوں یا لوگ اپنے ہدایا بھیجنے میں ساری ازواج مطہرات کا خیال رکھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 3398
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع النيسابوري الثقة المامون، قال: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: اجتمعن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فارسلن فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلن لها: إن نساءك وذكر كلمة معناها ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة، قالت: فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم , وهو مع عائشة في مرطها، فقالت له: إن نساءك ارسلنني , وهن ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" اتحبيني؟" قالت: نعم، قال:" فاحبيها". قالت: فرجعت إليهن , فاخبرتهن ما قال: فقلن لها: إنك لم تصنعي شيئا فارجعي إليه، فقالت: والله , لا ارجع إليه فيها ابدا. وكانت ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم حقا , فارسلن زينب بنت جحش، قالت عائشة: وهي التي كانت تساميني من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: ازواجك ارسلنني , وهن ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة ثم اقبلت علي تشتمني , فجعلت اراقب النبي صلى الله عليه وسلم وانظر طرفه , هل ياذن لي من ان انتصر منها، قالت: فشتمتني حتى ظننت انه لا يكره ان انتصر منها، فاستقبلتها , فلم البث ان افحمتها، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" إنها ابنة ابي بكر"، قالت عائشة: فلم ار امراة خيرا , ولا اكثر صدقة , ولا اوصل للرحم , وابذل لنفسها في كل شيء يتقرب به إلى الله تعالى من زينب , ما عدا سورة من حدة كانت فيها توشك منها الفيئة. قال ابو عبد الرحمن: هذا خطا والصواب الذي قبله.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ الثِّقَةُ الْمَأْمُونُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اجْتَمَعْنَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلْنَ فَاطِمَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ لَهَا: إِنَّ نِسَاءَكَ وَذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ: فَدَخَلَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَهُوَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ نِسَاءَكَ أَرْسَلْنَنِي , وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُحِبِّينِي؟" قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَحِبِّيهَا". قَالَتْ: فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ , فَأَخْبَرَتْهُنَّ مَا قَالَ: فَقُلْنَ لَهَا: إِنَّكِ لَمْ تَصْنَعِي شَيْئًا فَارْجِعِي إِلَيْهِ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ , لَا أَرْجِعُ إِلَيْهِ فِيهَا أَبَدًا. وَكَانَتِ ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا , فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَزْوَاجُكَ أَرْسَلْنَنِي , وَهُنَّ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيَّ تَشْتِمُنِي , فَجَعَلْتُ أُرَاقِبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ طَرْفَهُ , هَلْ يَأْذَنُ لِي مِنْ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا، قَالَتْ: فَشَتَمَتْنِي حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ مِنْهَا، فَاسْتَقْبَلْتُهَا , فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ أَفْحَمْتُهَا، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ"، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمْ أَرَ امْرَأَةً خَيْرًا , وَلَا أَكْثَرَ صَدَقَةً , وَلَا أَوْصَلَ لِلرَّحِمِ , وَأَبْذَلَ لِنَفْسِهَا فِي كُلِّ شَيْءٍ يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنْ زَيْنَبَ , مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ كَانَتْ فِيهَا تُوشِكُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ. قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا خَطَأٌ وَالصَّوَابُ الَّذِي قَبْلَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور انہوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور ان سے کہا: آپ کی بیویاں - اور ایسا کلمہ کہا جس کا مفہوم یہ ہے - ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے مطالبہ کرتی ہیں کہ انصاف سے کام لیجئیے۔ چنانچہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کی چادر میں تھے۔ انہوں نے آپ سے کہا: (اللہ کے رسول!) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے وہ ابوقحافہ کی بیٹی (عائشہ) کے سلسلے میں آپ سے عدل کا مطالبہ کر رہی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: تو تم بھی ان (عائشہ) سے محبت کرو، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس واپس آ کر انہیں وہ ساری بات بتائی جو آپ نے (فاطمہ سے) کہی، وہ سب بولیں: تم نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا، تم پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ فاطمہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں ان کے سلسلے میں آپ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی اور درحقیقت وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں ۱؎، اب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ اور زینب ہی ایسی تھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک) میرے برابر کا درجہ رکھتی تھیں۔ وہ بولیں: (اللہ کے رسول!) آپ کی بیویوں نے مجھے آپ کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ وہ سب ابوقحافہ کی بیٹی کے تعلق سے آپ سے عدل و انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں اور وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی اور آپ کی نگاہ دیکھ رہی تھی کہ آیا آپ مجھے بھی ان کا جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں؟ زینب رضی اللہ عنہا ابھی وہیں پر تھیں کہ میں نے اندازہ کر لیا کہ اگر میں انہیں جواب دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا نہیں لگے گا۔ چنانچہ (جب) میں نے انہیں برا بھلا کہا (تو میں نے انہیں ذرا بھی ٹکنے نہیں دیا) یہاں تک کہ میں ان سے آگے نکل گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا سے فرمایا: یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کبھی بھی دین کے معاملے میں بہتر، اللہ سے ڈرنے والی، سچ بات کہنے والی اور صلہ رحمی کرنے والی، بڑے بڑے صدقات کرنے والی، صدقہ و خیرات اور قرب الٰہی کے کاموں میں خود کو سب سے زیادہ کمتر کرنے والی زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کوئی عورت نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ وہ مزاج کی تیز طرار تھیں لیکن ان کا غصہ بہت جلد رفع ہو جاتا تھا۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس (روایت) میں غلطی ہے صحیح وہی ہے جو اس سے پہلے گزری۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16674)، مسند احمد (6/150) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یعنی یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کرتیں جب کی آپ نے ان سے فرمایا تھا تو بھی عائشہ رضی الله عنہا سے محبت کر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.