(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، قال: انبانا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا الليث بن سعد، قال: حدثنا معاوية بن صالح، قال: اخبرني ابو يحيى سليم بن عامر، وضمرة بن حبيب، وابو طلحة نعيم بن زياد، قالوا: سمعنا ابا امامة الباهلي، يقول: سمعت عمرو بن عبسة، يقول: يا رسول الله، هل من ساعة اقرب من الاخرى او هل من ساعة يبتغى ذكرها؟ قال:" نعم، إن اقرب ما يكون الرب عز وجل من العبد جوف الليل الآخر، فإن استطعت ان تكون ممن يذكر الله عز وجل في تلك الساعة فكن، فإن الصلاة محضورة مشهودة إلى طلوع الشمس، فإنها تطلع بين قرني الشيطان، وهي ساعة صلاة الكفار فدع الصلاة حتى ترتفع قيد رمح ويذهب شعاعها، ثم الصلاة محضورة مشهودة حتى تعتدل الشمس اعتدال الرمح بنصف النهار، فإنها ساعة تفتح فيها ابواب جهنم وتسجر فدع الصلاة حتى يفيء الفيء، ثم الصلاة محضورة مشهودة حتى تغيب الشمس فإنها تغيب بين قرني شيطان وهي صلاة الكفار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قال: أَنْبَأَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، قال: أَخْبَرَنِي أَبُو يَحْيَى سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، وَضَمْرَةُ بْنُ حَبِيبٍ، وَأَبُو طَلْحَةَ نُعَيْمُ بْنُ زِيَادٍ، قَالُوا: سَمِعْنَا أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَبَسَةَ، يقول: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ مِنْ سَاعَةٍ أَقْرَبُ مِنَ الْأُخْرَى أَوْ هَلْ مِنْ سَاعَةٍ يُبْتَغَى ذِكْرُهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، إِنَّ أَقْرَبَ مَا يَكُونُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْعَبْدِ جَوْفَ اللَّيْلِ الْآخِرَ، فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُونَ مِمَّنْ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ، فَإِنَّ الصَّلَاةَ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيِ الشَّيْطَانِ، وَهِيَ سَاعَةُ صَلَاةِ الْكُفَّارِ فَدَعِ الصَّلَاةَ حَتَّى تَرْتَفِعَ قِيدَ رُمْحٍ وَيَذْهَبَ شُعَاعُهَا، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ حَتَّى تَعْتَدِلَ الشَّمْسُ اعْتِدَالَ الرُّمْحِ بِنِصْفِ النَّهَارِ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ تُفْتَحُ فِيهَا أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَتُسْجَرُ فَدَعِ الصَّلَاةَ حَتَّى يَفِيءَ الْفَيْءُ، ثُمَّ الصَّلَاةُ مَحْضُورَةٌ مَشْهُودَةٌ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ فَإِنَّهَا تَغِيبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ وَهِيَ صَلَاةُ الْكُفَّارِ".
ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسی گھڑی ہے جس میں دوسری گھڑیوں کی بنسبت اللہ تعالیٰ کا قرب زیادہ ہوتا ہو، یا کوئی ایسا وقت ہے جس میں اللہ کا ذکر مطلوب ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اللہ عزوجل بندوں کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں ہوتا ہے، اگر تم اس وقت اللہ عزوجل کو یاد کرنے والوں میں ہو سکتے ہو تو ہو جاؤ، کیونکہ فجر میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور سورج نکلنے تک رہتے ہیں، (پھر چلے جاتے ہیں) کیونکہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان نکلتا ہے، اور یہ کافروں کی نماز کا وقت ہے، لہٰذا (اس وقت) تم نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ سورج نیزہ کے برابر بلند ہو جائے، اور اس کی شعاع جاتی رہے پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ ٹھیک دوپہر میں سورج نیزہ کی طرح سیدھا ہو جائے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہ ایسا وقت ہے جس میں جہنم کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور وہ بھڑکائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ سایہ لوٹنے لگ جائے، پھر نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں، اور موجود رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے، کیونکہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان ڈوبتا ہے، اور وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے“۔