سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
24. بَابُ : أَوَّلِ وَقْتِ الصُّبْحِ
24. باب: فجر کے اول وقت کا بیان۔
Chapter: The Beginning Of The Time For Subh
حدیث نمبر: 545
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا حميد، عن انس، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن وقت صلاة الغداة، فلما اصبحنا من الغد امر حين انشق الفجر ان تقام الصلاة فصلى بنا، فلما كان من الغد اسفر ثم امر فاقيمت الصلاة فصلى بنا، ثم قال:" اين السائل عن وقت الصلاة؟ ما بين هذين وقت".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا مِنَ الْغَدِ أَمَرَ حِينَ انْشَقَّ الْفَجْرُ أَنْ تُقَامَ الصَّلَاةُ فَصَلَّى بِنَا، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَسْفَرَ ثُمَّ أَمَرَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى بِنَا، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟ مَا بَيْنَ هَذَيْنِ وَقْتٌ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے فجر کے وقت کے بارے میں پوچھا، تو جب ہم نے دوسرے دن صبح کی تو آپ نے ہمیں جس وقت فجر کی پو پھٹی نماز کھڑی کرنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب دوسرا دن آیا، اور خوب اجالا ہو گیا تو حکم دیا تو نماز کھڑی کی گئی، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کا وقت پوچھنے والا کہاں ہے؟ انہی دونوں کے درمیان (فجر کا) وقت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 592)، مسند احمد 3/113، 182 (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
حدیث نمبر: 507
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله، عن مالك، قال: حدثني الزهري وإسحاق بن عبد الله، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء"، فقال احدهما: فياتيهم وهم يصلون، وقال الآخر: والشمس مرتفعة.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ وَإِسْحَاق بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُصَلِّي الْعَصْرَ ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى قُبَاءٍ"، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: فَيَأْتِيهِمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَقَالَ الْآخَرُ: وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے: اور سورج بلند ہوتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 13 (548)، صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (10)، (تحفة الأشراف: 202) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مسجد قباء مسجد نبوی سے تین میل کی دوری پر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 508
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، انه اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يصلي العصر والشمس مرتفعة حية، ويذهب الذاهب إلى العوالي والشمس مرتفعة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، وَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔

تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ عن طریق شعیب عن الزہری: صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن ابی داود/الصلاة 5 (404)، سنن ابن ماجہ/فیہ 5 (682)، (تحفة الأشراف: 1522)، مسند احمد 3/ 223 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مدینہ کے اردگرد جنوب مغرب میں جو بستیاں تھیں انہیں عوالی کہا جاتا تھا، ان میں سے بعض مدینہ سے دو میل بعض تین میل اور بعض آٹھ میل کی دوری پر تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 509
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ربعي بن حراش، عن ابي الابيض، عن انس بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي بنا العصر والشمس بيضاء محلقة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أَبِي الْأَبْيَضِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِنَا الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُحَلِّقَةٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عصر پڑھاتے اور سورج سفید اور بلند ہوتا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 1710)، مسند احمد 3/131، 169، 184، 232 (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 553
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، ومحمد بن عبد الاعلى، قالا: حدثنا خالد، عن شعبة، عن ابي صدقة، عن انس بن مالك، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي الظهر إذا زالت الشمس، ويصلي العصر بين صلاتيكم هاتين، ويصلي المغرب إذا غربت الشمس، ويصلي العشاء إذا غاب الشفق، ثم قال: على إثره، ويصلي الصبح إلى ان ينفسح البصر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَا: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي صَدَقَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعَصْرَ بَيْنَ صَلَاتَيْكُمْ هَاتَيْنِ، وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ إِذَا غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ قَالَ: عَلَى إِثْرِهِ، وَيُصَلِّي الصُّبْحَ إِلَى أَنْ يَنْفَسِحَ الْبَصَرُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور عصر تمہاری ان دونوں نمازوں ۱؎ کے درمیان پڑھتے تھے، اور مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈوب جاتا تھا، اور عشاء اس وقت پڑھتے تھے جب شفق غائب جاتی تھی، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا: اور آپ فجر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نگاہ پھیل جاتی تھی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 259)، مسند احمد 3/129، 169 (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: ان دونوں نمازوں سے مراد ظہر اور عصر ہے یعنی تمہاری ظہر اور تمہاری عصر کے بیچ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصر ہوتی تھی، مقصود اس سے یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر جلدی پڑھتے تھے اور تم لوگ تاخیر سے پڑھتے ہو۔ ۲؎: یعنی اجالا ہو جاتا اور ساری چیزیں دکھائی دینے لگتی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.