(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، قال: حدثنا هشام بن عروة، قال: حدثني ابي، عن زينب بنت ابي سلمة، عن ام سلمة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنكم تختصمون إلي، وإنما انا بشر، ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فلا ياخذه، فإنما اقطعه به قطعة من النار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے سامنے مقدمات لاتے ہو، میں تو بس تمہاری طرح ایک انسان ہوں ۱؎، ممکن ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہو، لہٰذا اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو اسے وہ نہ لے کیونکہ میں تو اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا وكيع، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنكم تختصمون إلي وإنما انا بشر، ولعل بعضكم الحن بحجته من بعض، فإنما اقضي بينكما على نحو ما اسمع، فمن قضيت له من حق اخيه شيئا فإنما اقطع له قطعة من النار". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَإِنَّمَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، حالانکہ میں ایک انسان ہوں، اور ممکن ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے سے دلیل دینے میں چرب زبان ہو۔ میں تو صرف اس کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں جو میں سنتا ہوں، اب اگر میں کسی کو اس کے بھائی کا کوئی حق دلا دوں (اور وہ حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو گویا میں اس کو جہنم کا ٹکڑا دلا رہا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 5403 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تو کیا وہ پانے والے کے لیے ہر حال میں حلال ہو گا؟ نہیں، خود جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ملنے سے حلال نہیں ہو سکتا، (اگر حقیقت میں اس کا نہ ہو) تو دوسرے کسی قاضی کے فیصلے سے کیسے جائز ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کے معاملے میں سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے تو یہ فیصلہ ٹھیک ہے، لیکن اس طرح کے فیصلے حرام کو حلال، اور حلال کو حرام نہیں کر سکتے، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے فیصلے پر یہ عرض کیا کہ حقیقت میں غلط فیصلہ پر عمل آدمی کو جہنم پہنچا سکتا ہے۔