عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر (نفل) نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ مکہ سے مدینہ آ رہے تھے، اسی سلسلہ میں یہ آیت کریمہ: «فأينما تولوا فثم وجه اللہ»”تم جدھر بھی منہ کرو ادھر ہی اللہ کا منہ ہے“(البقرہ: ۱۱۵) نازل ہوئی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھتے تھے، وہ چاہے جس طرف متوجہ ہو جاتی، نیز آپ اس پر وتر (بھی) پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على راحلته في السفر حيثما توجهت به". قال مالك: قال عبد الله بن دينار: وكان ابن عمر يفعل ذلك. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ فِي السَّفَرِ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ". قَالَ مَالِكٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے جس طرف بھی وہ متوجہ ہوتی، مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار نے کہا: اور ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 4 (700)، موطا امام مالک/سفر 7 (26)، (تحفة الأشراف: 7238)، مسند احمد 2/13 (66)، ویأتي عند المؤل برقم: 744 (صحیح)»
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور، قال: حدثنا إسماعيل بن عمر، قال: حدثنا داود بن قيس، عن محمد بن عجلان، عن يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على حمار وهو راكب إلى خيبر والقبلة خلفه". قال ابو عبد الرحمن: لا نعلم احدا تابع عمرو بن يحيى على قوله يصلي على حمار، وحديث يحيى بن سعيد، عن انس الصواب، موقوف والله سبحانه وتعالى اعلم. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ، قال: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَهُوَ رَاكِبٌ إِلَى خَيْبَرَ وَالْقِبْلَةُ خَلْفَهُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى عَلَى قَوْلِهِ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ، وَحَدِيثُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسٍ الصَّوَابُ، مَوْقُوفٌ وَاللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى أَعْلَمُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا آپ سوار ہو کر خیبر کی طرف جا رہے تھے، اور قبلہ آپ کے پیچھے تھا۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے کہ ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن یحییٰ کی ان کے قول «يصلي على حمار» میں متابعت کی ہو ۱؎ اور یحییٰ بن سعید کی حدیث جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے ۲؎ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم بالصواب۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 1665)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/تقصیرالصلاة 10 (1100)، موطا امام مالک/قصر الصلاة 7 (26) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف کا یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنہم کی پچھلی حدیث سے متعلق ہے، اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن یحییٰ کے سوا دیگر رواۃ نے «حمار» کی جگہ مطلق سواری ( «راحلتہ») کا ذکر کیا ہے، اور بعض روایات میں ”اونٹ“ کی صراحت ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اونٹ پر سوار تھے نہ کہ گدھے پر، لیکن نووی نے دونوں روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے کہ کبھی آپ اونٹ پر سوار ہوئے اور کبھی گدھے پر، اور اس سے اصل مسئلے میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سواری کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر یا نفل پڑھی ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم میں تو اس کی صراحت موجود ہے کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ کو گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھتے دیکھا تو سوال کیا، اس پر انہوں نے صراحتاً کہا: ”اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا تو ایسا نہیں کرتا“ اس لیے ان کی روایت کو محض ان کا فعل قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على راحلته في السفر حيثما توجهت". قال مالك: قال عبد الله بن دينار: وكان ابن عمر يفعل ذلك. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ فِي السَّفَرِ حَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ". قَالَ مَالِكٌ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری پر نماز پڑھتے تھے خواہ وہ کسی بھی طرف متوجہ ہو جاتی۔ مالک کہتے ہیں کہ عبداللہ بن دینار کا کہنا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
(مرفوع) اخبرنا عيسى بن حماد، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن سالم، عن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي على الراحلة قبل اي وجه توجه به ويوتر عليها، غير انه لا يصلي عليها المكتوبة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهُ بِهِ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نماز پڑھتے خواہ وہ کسی بھی طرف آپ کو لے کر متوجہ ہوتی، وتر بھی اسی پر پڑھتے تھے، البتہ فرض نماز اس پر نہیں پڑھتے تھے۔