(مرفوع) اخبرنا محمد بن معمر، قال: حدثنا محمد بن كثير، قال: حدثنا سليمان بن كثير، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس يرفعه، قال:" من قتل في عمية او رمية بحجر او سوط او عصا فعقله عقل الخطإ، ومن قتل عمدا فهو قود، ومن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله , والملائكة , والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا، ولا عدلا". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُهُ، قَالَ:" مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّةٍ أَوْ رِمِّيَّةٍ بِحَجَرٍ أَوْ سَوْطٍ أَوْ عَصًا فَعَقْلُهُ عَقْلُ الْخَطَإِ، وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ، وَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ , وَالْمَلَائِكَةِ , وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی ہنگامے یا بلوے میں کسی پتھر، کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہے جو قتل خطا کی ہے، اور جس نے جان بوجھ کر مارا تو اس میں قصاص ہے اور جو کوئی اس کے اور اس کے (قصاص اور قاتل) کے درمیان حائل ہو گا تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کا نہ فرض قبول ہو گا نہ کوئی نفل“۔
(مرفوع) اخبرنا هلال بن العلاء بن هلال، قال: حدثنا سعيد بن سليمان، قال: انبانا سليمان بن كثير، قال: حدثنا عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قتل في عميا او رميا تكون بينهم بحجر، او سوط، او بعصا فعقله عقل خطإ، ومن قتل عمدا فقود يده فمن حال بينه وبينه فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين، لا يقبل منه صرف، ولا عدل". (مرفوع) أَخْبَرَنَا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّا أَوْ رِمِّيَّا تَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحَجَرٍ، أَوْ سَوْطٍ، أَوْ بِعَصًا فَعَقْلُهُ عَقْلُ خَطَإٍ، وَمَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَقَوَدُ يَدِهِ فَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ، وَلَا عَدْلٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کسی ہنگامے، یا بلوے اور فساد میں (جہاں قاتل معلوم نہ ہو سکے) کسی پتھر یا کوڑے یا ڈنڈے سے مارا جائے تو اس کی دیت وہی ہو گی جو قتل خطا کی ہے اور جس نے قصداً مارا تو اس پر قصاص ہو گا، جو کوئی قصاص اور قاتل کے درمیان حائل ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، نہ اس کا فرض قبول ہو گا نہ نفل“۔
وضاحت: ۱؎: قتل تلوار سے ہو یا ایسے ہتھیار سے جس سے قتل کیا جاتا ہے: اگر قتل کی نیت سے ہو تو قتل عمد (مقصد و ارادہ اور جان بوجھ کر قتل) ہے، اس میں قصاص ہے یا معاف کر دینے کی صورت میں دیت ہے، اور اگر قتل غلطی سے ہو خواہ کسی چیز سے بھی ہو تو اس میں دیت ہے، یہی حکم بندوق یا بم کا بھی ہو گا، فساد اور ہنگامے میں قتل خواہ کسی چیز سے ہو وہ ”غلطی سے قتل“ مانا جائے گا اور اس میں دیت ہو گی۔ جس کی تفصیل اس حدیث میں ہے اور یہی دیت مغلظہ ہے۔ اور فی زمانہ موجودہ سرکار مذکورہ دیت کی قیمت موجودہ بھاؤ سے لگا کر دیت مقرر کرے گی جیسا کہ سعودی عربیہ میں ہے۔