(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , عن مالك , عن نافع , عن عبد الله بن عمر , ان عائشة ارادت ان تشتري جارية تعتقها , فقال اهلها: نبيعكها على ان الولاء لنا , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" لا يمنعك ذلك , فإن الولاء لمن اعتق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّ عَائِشَةَ أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ جَارِيَةً تَعْتِقُهَا , فَقَالَ أَهْلُهَا: نَبِيعُكِهَا عَلَى أَنَّ الْوَلَاءَ لَنَا , فَذَكَرَتْ ذَلِكِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے لونڈی خریدنا چاہی تاکہ اسے آزاد کریں، تو اس کے گھر والوں (مالکان) نے کہا: ہم اسے آپ سے اس شرط پر بیچیں گے کہ ولاء (حق وراثت) ہمارا ہو گا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”تم اس وجہ سے مت رک جانا، کیونکہ ولاء (وراثت) تو اس کے لیے ہے جو آزاد کرے“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن يزيد، قال: حدثنا بهز بن اسد، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، انها ارادت ان تشتري بريرة فتعتقها، وإنهم اشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" اشتريها واعتقيها، فإن الولاء لمن اعتق وخيرت حين اعتقت"، واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم فقيل: هذا مما تصدق به على بريرة، فقال:" هو لها صدقة ولنا هدية" , وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَتُعْتِقَهَا، وَإِنَّهُمُ اشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ وَخُيِّرَتْ حِينَ أُعْتِقَتْ"، وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَقِيلَ: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ" , وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کر دینا چاہا، لیکن ان کے مالکان نے ولاء (ترکہ) خود لینے کی شرط لگائی۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو، اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) اسی کا ہے جو آزاد کرے“، اور جس وقت وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں۔ (اسی درمیان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا، کہا گیا کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا پر صدقہ کیا جاتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے“، ان کے شوہر آزاد تھے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 61 (1493)، العتق 10 (2536)، الھبة 7 (2578)، النکاح 18 (5097)، الطلاق 14 (5279)، 17 (5284)، والأطعمة 31 (5430)، الکفارات 8 (6717)، الفرائض 19 (6751)، 20 (6754)، 22 (6757)، 23 (6759)، (تحفة الأشراف: 15930)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزکاة52 (1075)، العتق 2 (1504)، سنن ابی داود/الفرائض 12 (2916)، الطلاق 19 (2233)، سنن الترمذی/البیوع 33 (1256)، الولاء 1 (2125)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 29 (2074)، موطا امام مالک/الطلاق 10 (25)، مسند احمد 6/42، 46، 115، 123، 170، 172، 175، 178، 180، 191، 207، 209، ویأتي عند المؤلف 3480 (صحیح) (یہ روایت ’’وکان زوجھا عبدا‘‘ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، اور ’’کان حرا‘‘ کا لفظ صرف ”الحکم عن الأسود عن عائشة“ کے طریق میں ہے، جو بقول امام بخاری راوی ’’حکم‘‘ کا ارسال ہے)»
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: انبانا ابن القاسم، عن مالك، عن ربيعة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان في بريرة ثلاث سنن إحدى السنن: انها اعتقت فخيرت في زوجها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولاء لمن اعتق"، ودخل رسول الله صلى الله عليه وسلم والبرمة تفور بلحم، فقرب إليه خبز وادم من ادم البيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الم ار برمة فيها لحم؟" فقالوا: بلى، يا رسول الله، ذلك لحم تصدق به على بريرة، وانت لا تاكل الصدقة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هو عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ سُنَنٍ إِحْدَى السُّنَنِ: أَنَّهَا أُعْتِقَتْ فَخُيِّرَتْ فِي زَوْجِهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْبُرْمَةُ تَفُورُ بِلَحْمٍ، فَقُرِّبَ إِلَيْهِ خُبْزٌ وَأُدْمٌ مِنْ أُدْمِ الْبَيْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَمْ أَرَ بُرْمَةً فِيهَا لَحْمٌ؟" فَقَالُوا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَلِكَ لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، وَأَنْتَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے تین سنتیں تھیں ۱؎، ایک یہ کہ وہ لونڈی تھیں آزاد کی گئیں، (آزادی کے باعث) انہیں ان کے شوہر کے سلسلہ میں اختیار دیا گیا (اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا) اور (دوسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے“، اور (تیسری سنت یہ کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے) گھر گئے (اس وقت ان کے یہاں) ہنڈیا میں گوشت پک رہا تھا، آپ کے سامنے روٹی اور گھر کے سالنوں میں سے ایک سالن پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے گوشت کی ہنڈیا نہیں دیکھی ہے؟“(تو پھر گوشت کیوں نہیں لائے؟) لوگوں نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! (آپ نے صحیح دیکھا ہے) لیکن یہ گوشت وہ ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں ملا ہے اور آپ صدقہ نہیں کھاتے (اس لیے آپ کے سامنے گوشت نہیں رکھا گیا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے لیے صدقہ ہے لیکن (جب تم اسے مجھے پیش کرو گے تو) وہ میرے لیے ہدیہ ہو گا (اس لیے اسے پیش کر سکتے ہو)“۳؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بریرہ رضی الله عنہا کے سبب تین سنتیں وجود میں آئیں۔ ۲؎: ولاء اس میراث کو کہتے ہیں جو آزاد کردہ غلام یا عقد موالاۃ کی وجہ سے حاصل ہو۔ ۳؎: معلوم ہوا کہ کسی چیز کی ملکیت مختلف ہو جائے تو اس کا حکم بھی مختلف ہو جاتا ہے۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن آدم، قال: حدثنا ابو معاوية، عن هشام، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: كان في بريرة ثلاث قضيات، اراد اهلها ان يبيعوها ويشترطوا الولاء، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اشتريها، واعتقيها، فإنما الولاء لمن اعتق"، واعتقت،" فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاختارت نفسها"، وكان يتصدق عليها، فتهدي لنا منه، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" كلوه فإنه عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ فِي بَرِيرَةَ ثَلَاثُ قَضِيَّاتٍ، أَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُعْتِقَتْ،" فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، وَكَانَ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهَا، فَتُهْدِي لَنَا مِنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" كُلُوهُ فَإِنَّهُ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی ذات سے تین قضیے (مسئلے) سامنے آئے: بریرہ رضی اللہ عنہا کے مالکان نے ان کو بیچ دینا اور ان کی ولاء (وراثت) کا شرط لگانا چاہا، میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”(ان کے شرط لگانے سے کچھ نہیں ہو گا) تم اسے خرید لو اور اسے آزاد کر دو، ولاء (میراث) اس کا حق ہے جو اسے آزاد کرے“، اور وہ (خرید کر) آزاد کر دی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تو اس نے اپنے آپ کو منتخب کر لیا (یعنی اپنے شوہر سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا)، اسے صدقہ دیا جاتا تھا تو اس صدقہ میں ملی ہوئی چیز میں سے ہمیں ہدیہ بھیجا کرتی تھی، میں نے یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا: ”اسے کھاؤ وہ (چیز) اس کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے“۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت: اشتريت بريرة، فاشترط اهلها ولاءها، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اعتقيها، فإنما الولاء لمن اعطى الورق"، قالت: فاعتقتها، فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم فخيرها من زوجها، قالت: لو اعطاني كذا وكذا ما اقمت عنده، فاختارت نفسها، وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَعْتِقِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ"، قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا، قَالَتْ: لَوْ أَعْطَانِي كَذَا وَكَذَا مَا أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو اس کے (بیچنے والے) مالکان نے اس کی ولاء (وراثت) کی شرط لگائی (کہ اس کے مرنے کا ترکہ ہم پائیں گے)، میں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”تم اسے آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرے (یعنی لونڈی یا غلام خرید کر آزاد کرے)، چنانچہ میں نے اسے آزاد کر دیا پھر (میرے آزاد کر دینے کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا اختیار دیا۔ اس نے کہا: اگر وہ مجھے اتنا اتنا دیں تب بھی میں ان کے پاس نہیں رہوں گی، اس نے اپنے حق خود اختیاری کا استعمال کیا (اور علیحدگی ہو گئی)، اس کا شوہر آزاد شخص تھا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عائشہ رضی الله عنہا سے ایک دوسری حدیث رقم (۳۴۸۱) میں بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر سے متعلق آیا ہے «وکان عبدا» یعنی وہ آزاد نہیں بلکہ غلام تھے، اسی طرح ابن عباس کی حدیث میں بھی ہے کہ وہ غلام تھے۔ اس لیے اس سلسلہ میں مناسب اور معقول توجیہ یہ ہے کہ وہ غلام تھے پھر آزاد کر دئے گئے، جن کو ان کی آزادی کی اطلاع نہیں ملی انہوں نے اصل کی بنیاد پر انہیں عبد کہا، ممکن ہے عائشہ رضی الله عنہا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہو۔ صحیح روایات کی موجودگی کہ بریرہ رضی الله عنہا کے شوہر آزاد تھے، اس حدیث میں یہ ذکر کرنا کہ وہ آزاد تھے شاذ اور ضعیف ہے اس لیے کہ یہ ثقات کی روایت کے خلاف ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن عبد الرحمن , قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة: انها ارادت ان تشتري بريرة، فاشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" اشتريها، واعتقيها، فإن الولاء لمن اعتق"، واتي بلحم، فقيل: إن هذا مما تصدق به على بريرة، فقال:" هو لها صدقة، ولنا هدية، وخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم"، وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَاشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، وَأُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقِيلَ: إِنَّ هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے ولاء (میراث) خود لینے کی شرط رکھی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے خرید لو اور آزاد کر دو کیونکہ ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کا حق ہے ۱؎، اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے لیے) گوشت لایا گیا اور بتا بھی دیا گیا کہ یہ اس گوشت میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا کو صدقہ میں دیا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے تو ہدیہ و تحفہ ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، بریرہ کا شوہر آزاد شخص تھا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2615) (صحیح دون قولہ: ’’…حرا‘‘ والمحفوظ أنہ کان عبدا مملوکا کما یأتی فی الباب التالی)»
وضاحت: ۱؎: لہٰذا بیچنے والا اگر شرط لگائے تو وہ شرط فاسد ہے اور شرط فاسد کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله حر والمحفوظ أنه كان عبدا
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة , قالت: كاتبت بريرة على نفسها بتسع اواق في كل سنة باوقية، فاتت عائشة تستعينها، فقالت: لا، إلا ان يشاءوا ان اعدها لهم عدة واحدة ويكون الولاء لي، فذهبت بريرة فكلمت في ذلك اهلها، فابوا عليها إلا ان يكون الولاء لهم، فجاءت إلى عائشة، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك، فقالت لها: ما قال اهلها، فقالت: لا، ها الله إذا إلا ان يكون الولاء لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذا؟" فقالت: يا رسول الله، إن بريرة اتتني تستعين بي على كتابتها، فقلت: لا، إلا ان يشاءوا ان اعدها لهم عدة واحدة، ويكون الولاء لي، فذكرت ذلك لاهلها، فابوا عليها إلا ان يكون الولاء لهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتاعيها، واشترطي لهم الولاء، فإن الولاء لمن اعتق"، ثم قام فخطب الناس، فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ما بال اقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله عز وجل؟ يقولون: اعتق فلانا والولاء لي، كتاب الله عز وجل احق وشرط الله اوثق، وكل شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، وإن كان مائة شرط، فخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم من زوجها، وكان عبدا، فاختارت نفسها"، قال عروة: فلو كان حرا، ما خيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم. أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: كَاتَبَتْ بَرِيرَةُ عَلَى نَفْسِهَا بِتِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ سَنَةٍ بِأُوقِيَّةٍ، فَأَتَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا، فَقَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ فَكَلَّمَتْ فِي ذَلِكَ أَهْلَهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَجَاءَتْ إِلَى عَائِشَةَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ لَهَا: مَا قَالَ أَهْلُهَا، فَقَالَتْ: لَا، هَا اللَّهِ إِذًا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا؟" فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَرِيرَةَ أَتَتْنِي تَسْتَعِينُ بِي عَلَى كِتَابَتِهَا، فَقُلْتُ: لَا، إِلَّا أَنْ يَشَاءُوا أَنْ أَعُدَّهَا لَهُمْ عَدَّةً وَاحِدَةً، وَيَكُونُ الْوَلَاءُ لِي، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِأَهْلِهَا، فَأَبَوْا عَلَيْهَا إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْوَلَاءُ لَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَاعِيهَا، وَاشْتَرِطِي لَهُمُ الْوَلَاءَ، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، ثُمَّ قَامَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ يَقُولُونَ: أَعْتِقْ فُلَانًا وَالْوَلَاءُ لِي، كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ، وَكُلُّ شَرْطٍ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ، وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ، فَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ زَوْجِهَا، وَكَانَ عَبْدًا، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا"، قَالَ عُرْوَةُ: فَلَوْ كَانَ حُرًّا، مَا خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنی آزادی کے لیے نو اوقیہ ۱؎ پر مکاتبت کی اور ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنے کی شرط ٹھہرائی اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے مدد حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس آئی۔ انہوں نے کہا: میں اس طرح مدد تو نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس پر راضی ہوں کہ میں انہیں ایک ہی دفعہ میں پوری رقم گن دوں اور ولاء (وراثت) میرا حق ہو (تو میں ایسا کر سکتی ہوں)، بریرہ اپنے لوگوں کے پاس گئی اور ان لوگوں سے اس معاملے میں بات کی، تو انہوں نے بغیر ولاء (وراثت) کے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا (کہا ولاء (میراث) ہم لیں گے) تو وہ لوٹ کر عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی، اور اسی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مالک کے جواب سے انہیں (عائشہ کو) آگاہ کیا، انہوں نے کہا: نہ قسم اللہ کی جب تک ولاء (میراث) مجھے نہ ملے گی (میں اکٹھی رقم نہ دوں گی)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا قصہ ہے؟ انہوں کہا: اللہ کے رسول! (بات یہ ہے کہ) بریرہ اپنی مکاتبت رضی اللہ عنہا پر مجھ سے امداد طلب کرنے آئی تو میں نے اس سے کہا میں یوں تو مدد نہیں کرتی مگر ہاں اگر وہ ولاء (میراث) کو میرا حق تسلیم کریں تو میں ساری رقم انہیں یکبارگی گن دیتی ہوں، اس بات کا ذکر اس نے اپنے مالک سے کیا تو انہوں نے کہا: نہیں، ولاء (میراث) ہم لیں گے (تب ہی ہم اس پر راضی ہوں گے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عائشہ سے) کہا: ”تم اسے خرید لو اور ان کے لیے ولاء (میراث) کی شرط مان لو، ولاء اس شخص کا حق ہے جو اسے آزاد کرے (اس طرح جب تم خرید کر آزاد کر دو گی تو حق ولاء (میراث) تم کو مل جائے گا)“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے لوگوں کو خطاب کیا (سب سے پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہیں ہیں، کہتے ہیں: (ہم سے خرید کر) آزاد تم کرو لیکن ولاء (وراثت) ہم لیں گے۔ اللہ عزوجل کی کتاب بر حق و صحیح تر ہے اور اللہ کی شرط مضبوط، ٹھوس اور قابل اعتماد ہے اور ہر وہ شرط جس کا کتاب اللہ میں وجود و ثبوت نہیں ہے باطل و بے اثر ہے، اگرچہ وہ ایک نہیں سو شرطیں ہوں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے یا علیحدہ ہو جانے کا اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا تو اس نے اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔ عروہ کہتے ہیں: اگر اس کا شوہر آزاد شخص ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے (علیحدہ ہو جانے کا) اختیار نہ دیتے۔
(مرفوع) اخبرنا القاسم بن زكريا بن دينار، قال: حدثنا حسين، عن زائدة، عن سماك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن عائشة: انها اشترت بريرة من اناس من الانصار، فاشترطوا الولاء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الولاء لمن ولي النعمة، وخيرها رسول الله صلى الله عليه وسلم"، وكان زوجها عبدا، واهدت لعائشة لحما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لو وضعتم لنا من هذا اللحم؟" قالت عائشة: تصدق به على بريرة، فقال:" هو عليها صدقة، وهو لنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا اشْتَرَتْ بَرِيرَةَ مِنْ أُنَاسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْوَلَاءُ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ، وَخَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، وَأَهْدَتْ لِعَائِشَةَ لَحْمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ وَضَعْتُمْ لَنَا مِنْ هَذَا اللَّحْمِ؟" قَالَتْ عَائِشَةُ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:" هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو کچھ انصاری لوگوں سے خریدا جنہوں نے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط رکھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولاء (میراث) کا حقدار ولی نعمت (آزاد کرانے والا) ہوتا ہے“۱؎، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی بریرہ کو) اختیار دیا، اس کا شوہر غلام تھا (اس نے اس حق کا اپنے حق میں استعمال کیا اور شوہر کو چھوڑ دیا)، اس نے (بریرہ نے) عائشہ رضی اللہ عنہا کو گوشت کا ہدیہ بھیجا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس گوشت میں ہمارے لیے بھی تو حصہ رکھنا تھا“، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ گوشت بریرہ کے پاس صدقہ آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ تھا لیکن ہمارے لیے (صدقہ نہیں) ہدیہ ہے“۲؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا يحيى بن ابي بكير الكرماني، قال: حدثنا شعبة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قال: وكان وصي ابيه، قال: وفرقت ان اقول سمعته من ابيك، قالت عائشة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بريرة، واردت ان اشتريها، واشترط الولاء لاهلها، فقال:" اشتريها، فإن الولاء لمن اعتق"، قال: وخيرت وكان زوجها عبدا، ثم قال: بعد ذلك ما ادري؟ واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم، فقالوا: هذا مما تصدق به على بريرة، قال:" هو لها صدقة ولنا هدية". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ الْكَرْمَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: وَكَانَ وَصِيَّ أَبِيهِ، قَالَ: وَفَرِقْتُ أَنْ أَقُولَ سَمِعْتُهُ مِنْ أَبِيكَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَرِيرَةَ، وَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، وَاشْتُرِطَ الْوَلَاءُ لِأَهْلِهَا، فَقَالَ:" اشْتَرِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ"، قَالَ: وَخُيِّرَتْ وَكَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، ثُمَّ قَالَ: بَعْدَ ذَلِكَ مَا أَدْرِي؟ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ، فَقَالُوا: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، قَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بریرہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں آپ کی رائے پوچھی، میرا ارادہ اسے خرید لینے کا ہے، لیکن اس کے مالکان کی طرف سے (اپنے لیے) ولاء (میراث) کی شرط لگائی گئی ہے (پھر میں کیا کروں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس شرط کے ساتھ بھی) تم اسے خرید لو (یہ شرط لغو و باطل ہے) ولاء (میراث) اس شخص کا حق ہے جو آزاد کرے“۔ راوی کہتے ہیں: (عائشہ رضی اللہ عنہا نے خرید کر آزاد کر دیا) اور اسے اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے یا اسے چھوڑ دینے کا) اس کا شوہر غلام تھا۔ یہ کہنے کے بعد راوی پھر کہتے ہیں: میں نہیں جانتا (کہ اس کا شوہر واقعی غلام تھا یا آزاد تھا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت پیش کیا گیا اور لوگوں نے بتایا کہ بریرہ کے پاس صدقہ میں آئے ہوئے گوشت میں سے یہ ہے۔ آپ نے فرمایا: ”وہ بریرہ کے لیے صدقہ اور ہمارے لیے ہدیہ و تحفہ ہے“(اس لیے ہم کھا سکتے ہیں)۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا جرير , عن منصور , عن إبراهيم , عن الاسود , عن عائشة , قالت: اشتريت بريرة فاشترط اهلها ولاءها , فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" اعتقيها , فإن الولاء لمن اعطى الورق" , قالت: فاعتقتها , قالت: فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخيرها من زوجها , فاختارت نفسها , وكان زوجها حرا. (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ الْأَسْوَدِ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: اشْتَرَيْتُ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطَ أَهْلُهَا وَلَاءَهَا , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" أَعْتِقِيهَا , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْطَى الْوَرِقَ" , قَالَتْ: فَأَعْتَقْتُهَا , قَالَتْ: فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا , فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا , وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدا تو ان کے گھر والوں نے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، میں نے اس کا ذکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) اس کا حق ہے جس نے درہم (روپیہ) دیا ہے“، چنانچہ میں نے انہیں آزاد کر دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور انہیں ان کے شوہر کے بارے میں اختیار دیا ۱؎ تو بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی زوجیت میں نہ رہنے کو ترجیح دی، حالانکہ ان کے شوہر آزاد تھے ۲؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3479 (صحیح) (لیکن ”وکان زوجھا حراً“ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ روایت یہی ہے کہ بریرہ کے شوہر غلام تھے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی چاہیں تو اس شوہر کی زوجیت میں رہیں جن سے غلامی میں نکاح ہوا تھا، اور چاہیں تو ان کی زوجیت میں نہ رہیں۔ ۲؎: صحیح واقعہ یہ ہے کہ وہ اس وقت غلام تھے، اسی لیے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا گیا، اگر وہ آزاد ہوتے تو بریرہ رضی اللہ عنہا کو اختیار دیا ہی نہیں جاتا، (دیکھئیے حدیث رقم ۲۶۱۵ و ۳۴۷۹) اس حدیث کی باب سے مناسبت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء والی شرط کو باطل قرار دے کر باقی معاملہ (بریرہ کی بیع کو) صحیح قرار دیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله وكان زوجها حرا فإنه شاذ والمحفوظ أنه كان عبدا
(مرفوع) اخبرنا محمد بن بشار , قال: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة , قال: سمعت عبد الرحمن بن القاسم، قال: سمعت القاسم يحدث , عن عائشة انها ارادت ان تشتري بريرة للعتق وانهم اشترطوا ولاءها , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشتريها فاعتقيها , فإن الولاء لمن اعتق" , واتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بلحم , فقيل: هذا تصدق به على بريرة , فقال:" هو لها صدقة , ولنا هدية" , وخيرت. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ يُحَدِّثُ , عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ وَأَنَّهُمُ اشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ" , وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ , فَقِيلَ: هَذَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ , فَقَالَ:" هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ , وَلَنَا هَدِيَّةٌ" , وَخُيِّرَتْ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے غلامی سے آزاد کرنے کے لیے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنا چاہا، لوگوں نے ان کے ولاء (وراثت) کی شرط لگائی، انہوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں خرید کر آزاد کر دو، کیونکہ ولاء (وراثت) کا حق اسی کا ہے جو آزاد کرے“، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو کہا گیا: یہ تو بریرہ پر کیا گیا صدقہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے تحفہ (ہدیہ) ہے“، اور انہیں (بریرہ کو) اختیار دیا گیا (شوہر کے ساتھ رہنے اور نہ رہنے کا)۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا الليث , عن ابن شهاب , عن عروة , عن عائشة اخبرته، ان بريرة جاءت عائشة تستعينها في كتابتها شيئا، فقالت لها عائشة: ارجعي إلى اهلك , فإن احبوا ان اقضي عنك كتابتك ويكون ولاؤك لي فعلت , فذكرت ذلك بريرة لاهلها فابوا، وقالوا: إن شاءت ان تحتسب عليك فلتفعل ويكون لنا ولاؤك , فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتاعي واعتقي , فإن الولاء لمن اعتق" , ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما بال اقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله , فمن اشترط شيئا ليس في كتاب الله , فليس له , وإن اشترط مائة شرط , وشرط الله احق واوثق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ , فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لِأَهْلِهَا فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ وَيَكُونَ لَنَا وَلَاؤُكِ , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَاعِي وَأَعْتِقِي , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ" , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَمَنِ اشْتَرَطَ شَيْئًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ , فَلَيْسَ لَهُ , وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ شَرْطٍ , وَشَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں، اپنی کتابت کے سلسلے میں ان کی مدد چاہتی تھیں، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تم اپنے گھر والوں (مالکوں) کے پاس لوٹ جاؤ، اب اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری مکاتبت (کی رقم) ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہو گا تو میں ادا کر دوں گی، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ اپنے گھر والوں سے کیا تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں البتہ تمہارا ولاء (ترکہ) ہمارے لیے ہو گا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”انہیں خرید لو ۲؎ اور آزاد کر دو“۔ ولاء (وراثت) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا حال ہے ان لوگوں کا جو ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہ ہو، تو وہ پوری نہ ہو گی گرچہ سو شرطیں لگائی گئی ہوں، اللہ کی شرط قبول کرنے اور اعتماد کرنے کے لائق ہے“۔
وضاحت: ۱؎: «مکاتب»: وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے کہے کہ اگر تم اتنی اتنی رقم اتنی مدت میں، یا جب بھی کما کر ادا کر دے تو تم آزاد ہو۔ ۲؎: بریرہ رضی اللہ عنہا نے چونکہ ابھی تک «مکاتبت»(معاہدہ آزادی) کی کوئی قسط ادا نہیں کی تھی، اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کل رقم ادا کر کے انہیں خرید لیا، یہی باب سے مناسبت ہے۔
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى , قال: انبانا ابن وهب , قال: اخبرني رجال من اهل العلم منهم يونس , والليث , ان ابن شهاب اخبرهم , عن عروة , عن عائشة , انها قالت: جاءت بريرة إلي، فقالت: يا عائشة , إني كاتبت اهلي على تسع اواق في كل عام اوقية , فاعينيني ولم تكن قضت من كتابتها شيئا , فقالت لها عائشة , ونفست فيها: ارجعي إلى اهلك فإن احبوا ان اعطيهم ذلك جميعا ويكون ولاؤك لي فعلت , فذهبت بريرة إلى اهلها فعرضت ذلك عليهم فابوا , وقالوا: إن شاءت ان تحتسب عليك فلتفعل , ويكون ذلك لنا , فذكرت ذلك عائشة لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال:" لا يمنعك ذلك منها ابتاعي , واعتقي , فإن الولاء لمن اعتق" , ففعلت , وقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس , فحمد الله تعالى , ثم قال:" اما بعد , فما بال الناس يشترطون شروطا ليست في كتاب الله من , اشترط شرطا ليس في كتاب الله فهو باطل , وإن كان مائة شرط , قضاء الله احق وشرط الله اوثق , وإنما الولاء لمن اعتق". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى , قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ يُونُسُ , وَاللَّيْثُ , أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُمْ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ إِلَيَّ، فَقَالَتْ: يَا عَائِشَةُ , إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ , فَأَعِينِينِي وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا , فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ , وَنَفِسَتْ فِيهَا: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أُعْطِيَهُمْ ذَلِكَ جَمِيعًا وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ , فَذَهَبَتْ بَرِيرَةُ إِلَى أَهْلِهَا فَعَرَضَتْ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا , وَقَالُوا: إِنْ شَاءَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ , وَيَكُونَ ذَلِكِ لَنَا , فَذَكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" لَا يَمْنَعُكِ ذَلِكِ مِنْهَا ابْتَاعِي , وَأَعْتِقِي , فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ" , فَفَعَلَتْ , وَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسِ , فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَى , ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ , فَمَا بَالُ النَّاسِ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنْ , اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَهُوَ بَاطِلٌ , وَإِنْ كَانَ مِائَةَ شَرْطٍ , قَضَاءُ اللَّهِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللَّهِ أَوْثَقُ , وَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا نے آ کر کہا: عائشہ! میں نے نو اوقیہ کے بدلے اپنے گھر والوں (مالکوں) سے مکاتبت کر لی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ دوں گی تو آپ میری مدد کریں۔ (اس وقت) انہوں نے اپنی کتابت میں سے کچھ بھی ادا نہ کیا تھا۔ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا اور ان میں دلچسپی لے رہی تھیں: جاؤ اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس اگر وہ پسند کریں کہ میں انہیں یہ رقم ادا کر دوں اور تمہارا ولاء (حق وراثت) میرے لیے ہو گا تو میں ایسا کروں، بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے لوگوں (مالکوں) کے پاس گئیں اور ان کے سامنے یہ بات پیش کی، تو انہوں نے انکار کیا اور کہا: اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کرنا چاہتی ہیں تو کریں لیکن وہ ولاء (ترکہ) ہمارا ہو گا، اس کا ذکر عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ”یہ چیز تمہیں ان سے مانع نہ رکھے، خریدو اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) تو اسی کا ہے جس نے آزاد کیا“، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ”امابعد، لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہوتیں، جو ایسی شرط لگائے گا جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ باطل ہے گرچہ وہ سو شرطیں ہوں، اللہ تعالیٰ کا فیصلہ زیادہ قابل قبول اور اللہ تعالیٰ کی شرط زیادہ لائق بھروسہ ہے، ولاء (حق وراثت) اسی کا ہے جس نے آزاد کیا“۔