72. باب: ایک بیع میں دو شرط لگانا یعنی کوئی یہ کہے کہ میں تم سے اس شرط پر یہ سامان بیچ رہا ہوں کہ اگر ایک مہینہ میں قیمت ادا کر دو گے تو اتنے روپے کا ہے اور دو مہینہ میں ادا کرو گے تو اتنے کا۔۔
Chapter: Two conditions in one Transaction, Which is When one Says: "I Will Sell You This For This Price, If You Pay After One Month, And Another Price If You Pay After Two Months''
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں، اور نہ ہی ایسی چیز کا نفع جس کے تاوان کی ذمے داری نہ ہو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4615 (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور دونوں میں سے کسی ایک پر بات طے نہ ہو، اور اگر کسی ایک پر بات طے ہو جائے تو پھر بیع حلال اور جائز ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ادھار اور بیع ایک ساتھ جائز نہیں ۱؎، اور نہ ہی ایک بیع میں دو شرطیں درست ہیں ۲؎، اور نہ اس چیز کی بیع درست ہے جو سرے سے تمہارے پاس ہو ہی نہ“۳؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 7 (3504)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1234)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2188)، (تحفة الأشراف: 8664)، مسند احمد (2/178)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4634، 4635 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار کے ہاتھ آٹھ سو کا سامان ایک ہزار روپے کے بدلے اس شرط پر بیچے کہ بیچنے والا خریدار کو ایک ہزار روپے بطور قرض دے گا (دیکھئیے باب رقم ۷۰) گویا بیع کی اگر یہ شکل نہ ہوتی تو بیچنے والا خریدار کو قرض نہ دیتا اور اگر قرض کا وجود نہ ہوتا تو خریدار یہ سامان نہ خریدتا۔ ۲؎: مثلاً کوئی کہے کہ یہ غلام میں نے تجھ سے ایک ہزار نقد اور دو ہزار ادھار میں بیچا (دیکھئیے باب رقم ۷۲) یہ ایسی بیع ہے جو دو شرطں ہیں یا مثلاً کوئی یوں کہے کہ میں نے تم سے اپنا یہ کپڑا اتنے اتنے میں اس شرط پر بیچا کہ اس کا دھلوانا اور سلوانا میرے ذمہ ہے۔ ۳؎: بیچنے والے کے پاس جو چیز موجود نہیں ہے اسے بیچنے سے اس لیے روک دیا گیا ہے کہ اس میں دھوکہ دھڑی کا خطرہ ہے جیسے کوئی شخص اپنے بھاگے ہوئے غلام یا اونٹ بیچے جب کہ ان دونوں کے واپسی کی ضمانت بیچنے والا نہیں دے سکتا البتہ ایسی چیز کی بیع جو اپنی صفت کے اعتبار سے خریدار کے لیے بالکل واضح ہو جائز ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع سلم کی اجازت دی ہے باوجود یہ کہ بیچی جانے والی چیز بیچنے والے کے پاس بروقت موجود نہیں ہوتی۔ (کیونکہ چیز کے سامنے آنے کے بعد اختلاف اور جھگڑا پیدا ہو سکتا ہے)۔
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف اور بیع ایک ساتھ کرنے، ایک بیع میں دو شرطیں لگانے، اور اس چیز کے نفع لینے سے منع فرمایا جس کے تاوان کا وہ ذمے دار (ضامن) نہ ہو ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن رافع , قال: حدثنا عبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن ايوب , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن سلف وبيع , وعن شرطين في بيع واحد , وعن بيع ما ليس عندك , وعن ربح ما لم يضمن". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَلَفٍ وَبَيْعٍ , وَعَنْ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ وَاحِدٍ , وَعَنْ بَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ , وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ يُضْمَنْ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلف (قرض) اور بیع ایک ساتھ کرنے سے، ایک ہی بیع میں دو شرطیں لگانے سے، اور اس چیز کے بیچنے سے جو تمہارے پاس موجود نہ ہو اور ایسی چیز کے نفع سے جس کے تاوان کی ذمہ داری نہ ہو، (ان سب سے) منع فرمایا۔