ابومسعود عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎ زانیہ عورت کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی اجرت ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 113 (2237)، الإجارة 20 (2282)، الطلاق51(5346)، الطب 46 (5761)، صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع30) (1567)، سنن ابی داود/البیوع41(3428)، 65(3481)، سنن الترمذی/النکاح 37 (1133)، البیوع 46 (1276)، الطب 23 (2071)، سنن ابن ماجہ/التجارات9(2159)، (تحفة الأشراف: 10010)، موطا امام مالک/البیوع 29 (68)، مسند احمد 1/118، 120، 140، سنن الدارمی/البیوع 34 (2610)، ویأتي عند المؤلف في البیوع 91 (برقم4670) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: کتا نجس و ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر، جائیداد اور جانوروں کی رکھوالی کے لیے ہو۔ مگر ایسے کتوں کی بھی تجارت ناپسندیدہ ہے، اور جس حدیث میں اس کی رخصت کی بات آئی ہے اس کی صحت میں سخت اختلاف ہے، (جیسے حدیث نمبر ۴۳۰۰)۲؎ چونکہ زنا بڑے گناہوں اور فحش کاموں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔ ۳؎: علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا بڑا گناہ ہے اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی باطل طریقے سے لوگوں سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔