وضاحت: ۱؎: ”نصیحت“ کے معنی ہیں: خیر خواہی، کسی کا بھلا چاہنا، یوں تو اسلام کی طبیعت و مزاج میں ہر مسلمان بھائی کے ساتھ خیر خواہی و بھلائی داخل ہے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی خاص بات پر بھی خصوصی بیعت لیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے بعد بھی کوئی مسلم حکمراں کسی مسلمان سے کسی خاص بات پر بیعت کر سکتا ہے، مقصود اس بات کی بوقت ضرورت و اہمیت اجاگر کرنی ہوتی ہے۔
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سمع و طاعت (بات سننے اور اس پر عمل کرنے) پر اور اس بات پر کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں گا۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة، عن جرير، عن مغيرة، عن ابي وائل، والشعبي , قالا: قال جرير: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت له: ابايعك على السمع والطاعة فيما احببت وفيما كرهت؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" او تستطيع ذلك يا جرير او تطيق ذلك"، قال:" قل فيما استطعت" , فبايعني , والنصح لكل مسلم. (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَالشَّعْبِيِّ , قَالَا: قَالَ جَرِيرٌ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: أُبَايِعُكَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِيمَا أَحْبَبْتُ وَفِيمَا كَرِهْتُ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَ تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ يَا جَرِيرُ أَوَ تُطِيقُ ذَلِكَ"، قَالَ:" قُلْ فِيمَا اسْتَطَعْتُ" , فَبَايَعَنِي , وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ.
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں آپ سے ہر اس چیز میں جو مجھے پسند ہو اور اس میں جو ناپسند ہو سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: ”جریر! کیا تم اس کی استطاعت رکھتے ہو، یا طاقت رکھتے ہو؟“ آپ نے فرمایا: ”کہو ان چیزوں میں جن کو میں کر سکتا ہوں، چنانچہ آپ نے مجھ سے بیعت لی، نیز ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت لی“۔
(مرفوع) اخبرنا بشر بن خالد، قال: حدثنا غندر، عن شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن جرير، قال:" بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة , وإيتاء الزكاة , والنصح لكل مسلم , وعلى فراق المشرك". (مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ , وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ , وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ , وَعَلَى فِرَاقِ الْمُشْرِكِ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ ادا کرنے، ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے پر بیعت کی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4179 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مسلمانوں کے کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہنے کی بابت اور بھی احادیث مروی ہیں مگر ان کا مصداق اسی طرح کے حالات ہیں جو اس وقت تھے، شریعت نے آدمی کو اس کی طاقت سے زیادہ پابند نہیں کیا ہے، آج کل بہت سے ممالک میں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ مسلمان مشرکین و کفار سے الگ رہیں، حد تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک بھی دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کو اپنے ملکوں میں آنے نہیں دیتے، صرف چند دنوں کے ویزہ کے مطابق رہنے دیتے ہیں، پھر وقت پر نکل جانے پر مجبور کرتے ہیں۔
(مرفوع) اخبرني محمد بن قدامة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، عن ابي نخيلة البجلي، قال: قال جرير: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يبايع، فقلت: يا رسول الله، ابسط يدك حتى ابايعك واشترط علي فانت اعلم. قال:" ابايعك على ان تعبد الله وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتناصح المسلمين، وتفارق المشركين". (مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي نُخَيْلَةَ الْبَجَلِيِّ، قَالَ: قَالَ جَرِيرٌ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُبَايِعُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْسُطْ يَدَكَ حَتَّى أُبَايِعَكَ وَاشْتَرِطْ عَلَيَّ فَأَنْتَ أَعْلَمُ. قَالَ:" أُبَايِعُكَ عَلَى أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتُنَاصِحَ الْمُسْلِمِينَ، وَتُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ".
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ بیعت لے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کروں، اور آپ شرط بتائیے کیونکہ آپ زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے، نماز قائم کرو گے، زکاۃ ادا کرو گے، مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کرو گے اور کفار و مشرکین سے الگ تھلگ رہو گے“۔
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سمع و طاعت (حکم سننے اور اس پر عمل کرنے) پر بیعت کی تو آپ نے مجھے ”جتنی میری طاقت ہے“ کہنے کی تلقین کی، نیز میں نے ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت کی۔