عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ مذکورہ قصہ بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آ کر کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ اپنی بیوی سے الگ تھلگ رہیں، میں نے کہا: کیا میں اسے طلاق دے دوں؟ یا اس کا کچھ اور مطلب ہے، اس (قاصد) نے کہا، طلاق نہیں، بس تم اس کے قریب نہ جاؤ (اس سے جدا رہو)، میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ۱؎ اور جب تک اس معاملہ میں اللہ کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے وہیں رہو۔
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک کے لیے نکلنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے۔ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ فرمایا:) … ۱؎۔
عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے (اور وہ ان تینوں میں سے ایک تھے جن کی توبہ قبول ہوئی ہے ۱؎، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں ساتھیوں ۲؎ کے پاس (ایک شخص کو) بھیجا (اس نے کہا) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیویوں سے الگ رہو، میں نے قاصد سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو بلکہ اس سے الگ تھلگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور انہیں کے ساتھ رہو، تو وہ ان کے پاس جا کر رہنے لگی۔
(مرفوع) اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج بن محمد، قال: حدثنا الليث بن سعد، قال: حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب، ان عبد الله بن كعب، قال: سمعت كعبا يحدث حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، وقال فيه: إذا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيني، ويقول:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تعتزل امراتك، فقلت: اطلقها، ام ماذا افعل؟ قال: بل اعتزلها، ولا تقربها، وارسل إلى صاحبي بمثل ذلك، فقلت لامراتي: الحقي باهلك، وكوني عندهم حتى يقضي الله عز وجل في هذا الامر"، خالفهم معقل بن عبيد الله. (مرفوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبًا يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَقَالَ فِيهِ: إِذَا رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، وَيَقُولُ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا، أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: بَلِ اعْتَزِلْهَا، وَلَا تَقْرَبْهَا، وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، وَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي هَذَا الْأَمْرِ"، خَالَفَهُمْ مَعْقِلُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ کو اپنا اس وقت کا قصہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے جب وہ غزوہ تبوک میں جاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے اور شریک نہ ہوئے تھے۔ اس واقعہ کے ذکر کرنے کے دوران انہوں نے بتایا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو، میں نے (اس سے) کہا: میں اسے طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: (طلاق نہ دو) بلکہ اس سے الگ رہو اس کے قریب نہ جاؤ۔ میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) ایسا ہی پیغام دے کر بھیجا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور ان لوگوں کے ساتھ رہو اور اس وقت تک رہو جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں اپنا فیصلہ نہ سنا دے۔ معقل بن عبیداللہ نے ان سب کے خلاف ذکر کیا ہے (تفصیل آگے حدیث میں آ رہی ہے)۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معدان بن عيسى، قال: حدثنا الحسن بن اعين، قال: حدثنا معقل، عن الزهري، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب، عن عمه عبيد الله بن كعب، قال: سمعت ابي كعبا يحدث , قال: ارسل إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم وإلى صاحبي، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامركم ان تعتزلوا نساءكم، فقلت للرسول: اطلق امراتي، ام ماذا افعل؟ قال: لا، بل تعتزلها، ولا تقربها، فقلت لامراتي: الحقي باهلك، فكوني فيهم، حتى يقضي الله عز وجل، فلحقت بهم"، خالفه معمر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبًا يُحَدِّثُ , قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى صَاحِبَيَّ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَعْتَزِلُوا نِسَاءَكُمْ، فَقُلْتُ لِلرَّسُولِ: أُطَلِّقُ امْرَأَتِي، أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: لَا، بَلْ تَعْتَزِلُهَا، وَلَا تَقْرَبْهَا، فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي فِيهِمْ، حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَلَحِقَتْ بِهِمْ"، خَالَفَهُ مَعْمَرٌ.
عبیداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کعب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور میرے دونوں (پیچھے رہ جانے والے) ساتھیوں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ تم لوگ اپنی بیویوں سے جدا ہو جاؤ، میں نے پیغام لانے والے سے کہا: میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں یا کیا کروں؟ اس نے کہا: نہیں، طلاق نہ دو، بلکہ اس سے الگ رہو، اس کے قریب نہ جاؤ، (یہ سن کر) میں نے اپنی بیوی سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ اور جب تک اللہ عزوجل فیصلہ نہ کر دے انہیں لوگوں میں رہو، تو بیوی انہیں لوگوں کے پاس جا کر رہنے لگی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں) معمر نے معقل کے خلاف ذکر کیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3453 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اشارہ اس میں اس بات کی طرف ہے کہ معقل اور معمر دونوں امام زہری کے شاگرد ہیں۔ معقل نے اس روایت میں «لاتقربھا» کے بعد «فقلت لامرأتی الحقی باھلک ……» ذکر کیا ہے۔ لیکن معمر نے اپنی روایت میں جو اب آ رہی ہے اور ان کے استاد زہری ہی کے واسطہ سے آ رہی ہے «لاتقربھا» کے بعد «فقلت لامرأتی الحقی باھلک …» کا ذکر نہیں کیا ہے۔