(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، عن عبد الرحمن، قال: حدثنا ثابت بن قيس ابو الغصن شيخ من اهل المدينة، قال: حدثني ابو سعيد المقبري، قال: حدثني اسامة بن زيد، قال: قلت: يا رسول الله! لم ارك تصوم شهرا من الشهور ما تصوم من شعبان , قال:" ذلك شهر يغفل الناس عنه بين رجب ورمضان، وهو شهر ترفع فيه الاعمال إلى رب العالمين، فاحب ان يرفع عملي وانا صائم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ , قَالَ:" ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ".
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی لگاتار دو مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ شعبان میں برابر روزے رکھتے کہ وہ رمضان کے روزوں سے مل جاتا تھا، چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں، تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے فرض روزوں کے لیے برقرار رہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: ہم (ازواج مطہرات) میں سے کوئی رمضان میں (حیض کی وجہ سے) روزہ نہیں رکھتی تو اس کی قضاء نہیں کر پاتی یہاں تک کہ شعبان آ جاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھتے جتنا شعبان میں رکھتے تھے، آپ چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزے رکھتے، بلکہ (بسا اوقات) پورے (ہی) ماہ روزے رکھتے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے، آپ (تقریباً) پورے شعبان ہی روزے رکھتے تھے۔
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان، عن بقية، قال: حدثنا بحير، عن خالد، عن جبير بن نفير، ان رجلا سال عائشة عن الصيام، فقالت:" إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصوم شعبان كله، ويتحرى صيام الاثنين والخميس". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ بَقِيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَحِيرٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ عَائِشَةَ عَنِ الصِّيَامِ، فَقَالَتْ:" إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، وَيَتَحَرَّى صِيَامَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ".
جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزوں کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے، اور دو شنبہ (پیر) اور جمعرات کے روزے کا اہتمام فرماتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 16050)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصوم 44 (745)، سنن ابن ماجہ/الصوم 42 (1739)، مسند احمد 6/80، 89، 106 (صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک روزہ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ مہینہ شعبان کا تھا، بلکہ آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سال کے کسی بھی مہینہ میں پورا روزہ نہیں رکھتے تھے سوائے شعبان کے، آپ اسے رمضان سے ملا دیتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔