(مرفوع) اخبرنا ابو الاشعث، عن يزيد وهو ابن زريع، قال: حدثنا الجريري، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لعائشة:" اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الضحى؟ قالت: لا، إلا ان يجيء من مغيبه، قلت: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم له صوم معلوم سوى رمضان؟ قالت: والله إن صام شهرا معلوما سوى رمضان، حتى مضى لوجهه، ولا افطر حتى يصوم منه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ:" أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى؟ قَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ، قُلْتُ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ صَوْمٌ مَعْلُومٌ سِوَى رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنْ صَامَ شَهْرًا مَعْلُومًا سِوَى رَمَضَانَ، حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ، وَلَا أَفْطَرَ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، الا یہ کہ سفر سے (لوٹ کر) آتے، پھر میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان کے علاوہ کوئی متعین روزہ تھا؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم آپ نے سوائے رمضان کے کسی خاص مہینے کے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ آپ نے وفات پا لی، اور نہ ہی پورے ماہ بغیر روزے کے رہے، کچھ نہ کچھ روزے اس میں ضرور رکھتے۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے آج رات ایک رکعت میں پوری مفصل پڑھ ڈالی، تو انہوں نے کہا: یہ تو شعر کی طرح جلدی جلدی پڑھنا ہوا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «حمٓ» سے اخیر قرآن تک مفصل کی صرف بیس ہم مثل سورتیں ملا کر پڑھتے تھے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: وہ سورتیں یہ ہیں «الرحمن» اور «النجم» کو ایک رکعت میں، «اقتربت» اور «الحاقہ» کو ایک رکعت میں «الذاریات» اور «الطور» کو ایک رکعت میں «الواقعۃ» اور «نون» کو ایک رکعت میں، «سأل» اور «والنازعات» کو ایک رکعت میں «عبس» اور «ویل للمطففین» کو ایک رکعت میں «المدثر»، اور «المزمل» کو ایک رکعت میں، «ہل أتی» اور «لا أقسم» کو ایک رکعت میں، «عم یتسألون» اور «المرسلات» کو ایک رکعت میں، اور «والشمس کورت» اور «الدخان» کو ایک رکعت میں۔
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: انبانا خالد وهو ابن الحارث، عن كهمس، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لعائشة" اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الضحى؟ قالت: لا، إلا ان يجيء من مغيبه، قلت: هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا كله؟ قالت: لا، ما علمت صام شهرا كله إلا رمضان، ولا افطر حتى يصوم منه حتى مضى لسبيله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، عَنْ كَهْمَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ" أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى؟ قَالَتْ: لَا، إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ، قُلْتُ: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟ قَالَتْ: لَا، مَا عَلِمْتُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلَّا رَمَضَانَ، وَلَا أَفْطَرَ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ الضحیٰ (چاشت کی نماز) پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، الا یہ کہ سفر سے (لوٹ کر) آتے، (پھر) میں نے سوال کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی پورے ماہ روزے رکھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نہیں جانتی کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کبھی پورے ماہ کے روزے رکھے ہوں، اور اور نہ ایسا ہی ہوتا کہ آپ پورے ماہ بغیر روزے کے رہے ہوں، کچھ نہ کچھ روزے ضرور رکھتے یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔