سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer for the Two 'Eids
19. بَابُ : قِيَامِ الإِمَامِ فِي الْخُطْبَةِ مُتَوَكِّئًا عَلَى إِنْسَانٍ
19. باب: خطبہ میں امام کے کسی آدمی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہونے کا بیان۔
Chapter: Imam standing during the Khutbah, leaning on another person
حدیث نمبر: 1576
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان، قال: حدثنا عطاء، عن جابر، قال: شهدت الصلاة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في يوم عيد، فبدا بالصلاة قبل الخطبة بغير اذان ولا إقامة، فلما قضى الصلاة قام متوكئا على بلال فحمد الله واثنى عليه ووعظ الناس وذكرهم وحثهم على طاعته، ثم مال ومضى إلى النساء ومعه بلال , فامرهن بتقوى الله ووعظهن وذكرهن وحمد الله واثنى عليه ثم حثهن على طاعته، ثم قال:" تصدقن , فإن اكثركن حطب جهنم" , فقالت امراة من سفلة النساء سفعاء الخدين: بم يا رسول الله؟ قال:" تكثرن الشكاة وتكفرن العشير" , فجعلن ينزعن قلائدهن واقرطهن وخواتيمهن يقذفنه في ثوب بلال يتصدقن به.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا عَطَاءٌ، عَنْ جَابِرٍ، قال: شَهِدْتُ الصَّلَاةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَامَ مُتَوَكِّئًا عَلَى بِلَالٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ النَّاسَ وَذَكَّرَهُمْ وَحَثَّهُمْ عَلَى طَاعَتِهِ، ثُمَّ مَالَ وَمَضَى إِلَى النِّسَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ , فَأَمَرَهُنَّ بِتَقْوَى اللَّهِ وَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ حَثَّهُنَّ عَلَى طَاعَتِهِ، ثُمَّ قَالَ:" تَصَدَّقْنَ , فَإِنَّ أَكْثَرَكُنَّ حَطَبُ جَهَنَّمَ" , فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْ سَفِلَةِ النِّسَاءِ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ: بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" تُكْثِرْنَ الشَّكَاةَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ" , فَجَعَلْنَ يَنْزِعْنَ قَلَائِدَهُنَّ وَأَقْرُطَهُنَّ وَخَوَاتِيمَهُنَّ يَقْذِفْنَهُ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ يَتَصَدَّقْنَ بِهِ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عید کے دن نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، آپ نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور بغیر اقامت کے نماز پڑھی، پھر جب نماز پوری کر لی، تو آپ بلال رضی اللہ عنہ پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے، اور آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، لوگوں کو نصیحتیں کیں، اور انہیں (آخرت کی) یاد دلائی، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارا، پھر آپ مڑے اور عورتوں کی طرف چلے، بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ نے انہیں (بھی) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حکم دیا، اور انہیں نصیحت کی اور (آخرت کی) یاد دلائی، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ابھارا، پھر فرمایا: تم صدقہ کیا کرو کیونکہ عورتیں ہی زیادہ تر جہنم کا ایندھن ہوں گی، تو ایک عام درجہ کی ہلکے کالے رنگ کے گالوں والی عورت نے پوچھا: کس سبب سے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: (کیونکہ) وہ شکوے اور گلے بہت کرتی ہیں، اور شوہر کی ناشکری کرتی ہیں، عورتوں نے یہ سنا تو وہ اپنے ہار، بالیاں اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں، وہ انہیں صدقہ میں دے رہی تھیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1563 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 1494
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال:" خسفت الشمس فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا قرا نحوا من سورة البقرة , قال: ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد , ثم انصرف وقد تجلت الشمس , فقال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله عز وجل". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قالوا: يا رسول الله رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا ثم رايناك تكعكعت , قال:" إني رايت الجنة او اريت الجنة فتناولت منها عنقودا ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ارك اليوم منظرا قط ورايت اكثر اهلها النساء" , قالوا: لم يا رسول الله؟ قال:" بكفرهن" , قيل: يكفرن بالله , قال:" يكفرن العشير ويكفرن الإحسان، لو احسنت إلى إحداهن الدهر ثم رات منك شيئا , قالت: ما رايت منك خيرا قط".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قال:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ , قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ , ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ , فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ , قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَكَ الْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ" , قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِكُفْرِهِنَّ" , قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ , قَالَ:" يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا , قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 21 (29) مختصراً، ال صلاة 51 (431) مختصراً، الأذان 91 (748) مختصراً، الکسوف 9 (1052)، بدء الخلق 4 (3202) مختصراً، النکاح 88 (5197)، صحیح مسلم/الکسوف 3 (907)، سنن ابی داود/الصلاة 263 (1189)، (تحفة الأشراف: 5977)، موطا امام مالک/الکسوف 1 (2)، مسند احمد 1/298، 358، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1569) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
حدیث نمبر: 2584
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا بشر بن خالد، قال: حدثنا غندر، عن شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن عمرو بن الحارث، عن زينب امراة عبد الله، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم للنساء:" تصدقن ولو من حليكن"، قالت: وكان عبد الله خفيف ذات اليد فقالت له: ايسعني ان اضع صدقتي فيك وفي بني اخ لي يتامى، فقال عبد الله: سلي عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا على بابه امراة من الانصار يقال لها زينب تسال عما اسال عنه، فخرج إلينا بلال فقلنا له: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فسله عن ذلك ولا تخبره من نحن، فانطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" من هما؟" , قال: زينب , قال:" اي الزيانب؟" , قال:" زينب امراة عبد الله، وزينب الانصارية , قال:" نعم لهما اجران، اجر القرابة، واجر الصدقة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ:" تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ"، قَالَتْ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدِ فَقَالَتْ لَهُ: أَيَسَعُنِي أَنْ أَضَعَ صَدَقَتِي فِيكَ وَفِي بَنِي أَخٍ لِي يَتَامَى، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَلِي عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا عَلَى بَابِهِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ تَسْأَلُ عَمَّا أَسْأَلُ عَنْهُ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا لَهُ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ عَنْ ذَلِكَ وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ، فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مَنْ هُمَا؟" , قَالَ: زَيْنَبُ , قَالَ:" أَيُّ الزَّيَانِبِ؟" , قَالَ:" زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، وَزَيْنَبُ الْأَنْصَارِيَّةُ , قَالَ:" نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: تم صدقہ دو اگرچہ اپنے زیوروں ہی سے سہی، وہ کہتی ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (میرے شوہر) تنگ دست و مفلس تھے، تو میں نے ان سے پوچھا: کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بارے میں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ انصار کی ایک عورت اسے بھی زینب ہی کہا جاتا تھا آپ کے دروازے پر کھڑی ہے، وہ بھی اسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی جس کے بارے میں میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ اندر سے نکل کر ہماری طرف آئے، تو ہم نے ان سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں، اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھیں، اور آپ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم کون ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے (اور آپ سے پوچھا) آپ نے پوچھا: یہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: زینب، آپ نے فرمایا: کون سی زینب؟ انہوں نے کہا: ایک زینب تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی، اور ایک زینب انصار میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں (درست ہے) انہیں دوہرا ثواب ملے گا ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 48 (1466)، صحیح مسلم/الزکاة 14 (1000)، سنن الترمذی/الزکاة 12 (635، 636)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 24 (1834)، (تحفة الأشراف: 15887)، مسند احمد (3/502، و6/363)، سنن الدارمی/الزکاة23 (1661) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.