(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انه كان ينهى ان يسافر بالقرآن إلى ارض العدو، مخافة ان يناله العدو". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنَّهُ كَانَ يَنْهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے سے منع فرماتے تھے، کیونکہ یہ خطرہ ہے کہ کہیں دشمن اسے پا نہ لیں ۱؎۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی سر زمین میں قرآن لے کر جانے کی ممانعت اس خطرے کے پیش نظر فرمائی کہ کہیں اسے دشمن پا نہ لیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور اس کو ضائع کر دیں یا اس کی اہانت اور بے حرمتی کریں، ممکن ہے کہ یہ ممانعت نبی کریم ﷺ کے عہد سے خاص ہو جب مصحف کے نسخے بہت کم تھے، اور اکثر ایسا تھا کہ مصحف کی بعض آیتیں یا بعض سورتیں خاص خاص لوگوں کے پاس تھیں اور پورا مصحف کسی کے پاس نہ تھا تو آپ ﷺ کو یہ ڈر ہوا کہ کہیں یہ مصحف تلف ہو جائیں اور قرآن کا کوئی جزء مسلمانوں سے بالکل اٹھ جائے، لیکن اس زمانہ میں جب قرآن مجید کے لاکھوں نسخے چھپے موجود ہیں اور قرآن کے ہزاروں بلکہ لاکھوں حفاظ موجود ہیں، یہ اندیشہ بالکل نہیں رہا، جب کہ قرآن کریم کی اہانت اور بے حرمتی کا اندیشہ اب بھی باقی ہے، سبحان اللہ، اگلی امتوں میں سے کسی بھی امت میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا تھا جو پوری تورات یا انجیل کا حافظ ہو، اب مسلمانوں میں ہر بستی میں سینکڑوں حافظ موجود ہیں، یہ فضیلت بھی اللہ تعالی نے اسی امت کو دی ہے۔