(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا عبدة بن سليمان ، وابو اسامة ، ومحمد بن عبيد ، عن عبيد الله او قال عبد الله بن عمر: عن نافع ، عن ابن عمر ، انه كان يكري ارضا له مزارعا فاتاه إنسان فاخبره، عن رافع بن خديج ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن كراء المزارع"، فذهب ابن عمر وذهبت معه حتى اتاه بالبلاط فساله عن ذلك، فاخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نهى عن كراء المزارع" فترك عبد الله كراءها. (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَوْ قَالَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يُكْرِي أَرْضًا لَهُ مَزَارِعًا فَأَتَاهُ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَهُ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، فَذَهَبَ ابْنُ عُمَرَ وَذَهَبْتُ مَعَهُ حَتَّى أَتَاهُ بِالْبَلَاطِ فَسَأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ" فَتَرَكَ عَبْدُ اللَّهِ كِرَاءَهَا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ اپنی زمین کرایہ پر کھیتی کے لیے دیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک شخص آیا اور انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ والی حدیث کی خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما چلے اور میں بھی ان کے ساتھ چلا یہاں تک کہ بلاط میں رافع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا، تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیتوں کو کرائیے پر دینے سے منع کیا ہے، اس پر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان زمینوں کو کرایہ پر دینا چھوڑ دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: بلاط: مسجد نبوی کے پاس ایک مقام کا نام ہے۔ یہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کے خلاف ہے، اس میں بٹائی سے منع کیا ہے، لیکن سونے چاندی کے بدلے زمین کا کرایہ پر دینا درست بیان ہوا ہے،اور اس روایت میں مطلقاً کرایہ پر دینے سے ممانعت ہے اسی واسطے اہل حدیث نے رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ترک کیا کیونکہ وہ مضطرب ہے۔
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ بیع و مزابنہ سے منع کیا، اور فرمایا: ”کھیتی تین آدمی کریں: ایک وہ جس کی خود زمین ہو، وہ اپنی زمین میں کھیتی کرے، دوسرے وہ جس کو زمین (ہبہ یا مستعار) دی گئی ہو، تو وہ اس دی گئی زمین میں کھیتی کرے، تیسرے وہ جو سونا یا چاندی (نقد) دے کر زمین ٹھیکے پر لے لے“۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں محاقلہ سے مراد مزارعت (بٹائی) ہی ہے، اور اس کی ممانعت کا معاملہ اخلاقاً ہے نہ کہ بطور حرمت، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں نبی اکرم ﷺ نے نہ یہ کہ اس کی اجازت دی، بلکہ خود اہل خیبر سے بٹائی پر معاملہ کیا جیسا کہ «باب النخيل والكرم» میں آئے گا۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم مزارعت (بٹائی کھیتی) کیا کرتے تھے، اور اس میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے تھے، یہاں تک کہ ہم نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے تو پھر ہم نے ان کے کہنے سے اسے چھوڑ دیا ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی، یعنی خلاف اولیٰ تھی، تحریمی نہیں کیونکہ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ اپنے مسلمان بھائی کو کھیتی کے لئے مفت زمین دینی چاہئے، اسے بٹائی پر دینا کیا ضروری ہے، چونکہ عرب میں زمین کی کمی نہیں، پس جس قدر اپنے سے ہو سکے اس میں خود زراعت کرے، اور جو بچ رہے وہ اپنے مسلمان بھائی کو عاریت کے طور پر دے دے تاکہ ثواب حاصل ہو۔