(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح ، انبانا سفيان ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، عن ام عطية ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخرجوا العواتق، وذوات الخدور ليشهدن العيد، ودعوة المسلمين، وليجتنبن الحيض مصلى الناس". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَخْرِجُوا الْعَوَاتِقَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ لِيَشْهَدْنَ الْعِيدَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، وَلْيَجْتَنِبَنَّ الْحُيَّضُ مُصَلَّى النَّاسِ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنواری اور پردہ نشیں عورتوں کو عید گاہ لے جاؤ تاکہ وہ عید میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ بیٹھیں“۔
It was narrated that Umm ‘Atiyyah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) said: ‘Bring out the women who have attained puberty and those who are in seclusion so that they may attend the ‘Eid prayer and (join in) the supplication of the Muslims. But let the women who are menstruating avoid the prayer place.”
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے“۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ غریب و مسکین عورت بھی عیدگاہ کے لیے نکلے، اگر کپڑے نہ ہوں تو اپنی سہیلی یا رشتے دار عورت سے مانگ لے، اس حدیث سے عورتوں کے عیدین میں عیدگاہ جانے کی بڑی تاکید ثابت ہوتی ہے، بعض نے کہا کہ یہ حکم نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں تھا اور اب جب کہ فسق و فجور پھیل گیا ہے تو عورتوں کا باہر نکلنا مناسب نہیں، اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر نبی کریم ﷺ عورتوں کے وہ کام دیکھتے جو انہوں نے نکالے ہیں تو یقینا ان کو مسجد میں جانے سے منع کرتے جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کی گئیں، اور اس اثر سے خود ان لوگوں کے قول کے خلاف ثابت ہوتا ہے یعنی یہ کہ عورتوں کو باہر نکلنا منع نہیں ہوا۔ برصغیر میں علماء کا ایک طبقہ عورتوں کے عیدگاہ اور مساجد جانے کی بوجوہ چند بڑی مخالفت کرتا ہے، جبکہ نصوص شرعیہ سے عورتوں کا ان جگہوں پر جانا ثابت ہے، اور یہ ان کا حق ہے جو اسلام نے انہیں دیا ہے، بالخصوص اگر ان مساجد اور دینی مراکز کے ذریعہ سے وعظ و تبلیغ اور دینی تعلیم کی ضرورت بھی پوری ہوتی ہو تو اس سلسلہ میں عورتوں کو نہ صرف یہ کہ جانے کی اجازت دینی چاہیے بلکہ اس کا اہتمام بھی کرنا چاہئے، ظاہر بات ہے کہ اسلام نے جو آداب اس سلسلہ میں بتائے ہیں اس کا لحاظ کئے بغیر عورتوں کا باہر نکلنا صحیح اور مناسب نہ ہو گا، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ ہر طرح کے تجارتی اور تفریحی مقامات پر عورتیں بے پردہ اور بے لگام گھوم رہی ہیں اور اس سلسلہ میں کوئی حرج اور انکار کا جذبہ لوگوں میں باقی نہیں رہا، لیکن فقہی فروع کی پابندی اس انداز سے کرائی جاتی ہے کہ شریعت سے ثابت مسائل میں بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے، لہذا ہمیں شرعی ضابطہ میں رہ کر عورتوں کو ان دینی مقامات میں جانے کی ترغیب دینی چاہئے کیونکہ یہ ان کا حق ہے، اور اس سے بڑھ کر اگر دینی مسائل کے سیکھنے سکھانے کا موقع بھی فراہم ہو تو اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔
It was narrated that Umm ‘Atiyyah said:
“The Messenger of Allah (ﷺ) commanded us to bring them (the women) out on the day of Fitr and the day of Nahr.” Umm ‘Atiyyah said: “We said: ‘What if one of them does not have an outer covering?’ He said: ‘Let her sister share her own outer covering with her.’”