سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
ابواب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab Estaftah Assalah)
173. باب تَشْمِيتِ الْعَاطِسِ فِي الصَّلاَةِ
173. باب: نماز میں چھینک کے جواب میں «یرحمک اللہ» کہنے کا بیان۔
Chapter: Responding To The One Who Has Sneezed In The Prayer.
حدیث نمبر: 930
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى. ح وحدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم المعنى، عن حجاج الصواف، حدثني يحيى بن ابي كثير، عن هلال بن ابي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فعطس رجل من القوم، فقلت: يرحمك الله، فرماني القوم بابصارهم، فقلت: واثكل امياه، ما شانكم تنظرون إلي؟ فجعلوا يضربون بايديهم على افخاذهم، فعرفت انهم يصمتوني، فقال عثمان: فلما رايتهم يسكتوني لكني سكت، قال: فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بابي وامي ما ضربني ولا كهرني ولا سبني، ثم قال:" إن هذه الصلاة لا يحل فيها شيء من كلام الناس هذا إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن"، او كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، إنا قوم حديث عهد بجاهلية، وقد جاءنا الله بالإسلام، ومنا رجال ياتون الكهان، قال:" فلا تاتهم"، قال: قلت: ومنا رجال يتطيرون، قال:" ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدهم"، قلت: ومنا رجال يخطون، قال:" كان نبي من الانبياء يخط، فمن وافق خطه فذاك"، قال: قلت جارية لي كانت ترعى غنيمات قبل احد والجوانية: إذ اطلعت عليها اطلاعة فإذا الذئب قد ذهب بشاة منها، وانا من بني آدم آسف كما ياسفون، لكني صككتها صكة، فعظم ذاك على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: افلا اعتقها؟ قال:" ائتني بها"، قال: فجئته بها، فقال:" اين الله؟" قالت: في السماء، قال:" من انا؟" قالت: انت رسول الله، قال:" اعتقها فإنها مؤمنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمَعْنَى، عَنْ حَجَّاجٍ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقُلْتُ: وَاثُكْلَ أُمِّيَاهُ، مَا شَأْنُكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ؟ فَجَعَلُوا يَضْرِبُونَ بِأَيْدِيهِمْ عَلَى أَفْخَاذِهِمْ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ يُصَمِّتُونِي، فَقَالَ عُثْمَانُ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ يُسَكِّتُونِي لَكِنِّي سَكَتُّ، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي وَأُمِّي مَا ضَرَبَنِي وَلَا كَهَرَنِي وَلَا سَبَّنِي، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ لَا يَحِلُّ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ كَلَامِ النَّاسِ هَذَا إِنَّمَا هُوَ التَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ وَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ"، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا قَوْمٌ حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، وَقَدْ جَاءَنَا اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ، وَمِنَّا رِجَالٌ يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ:" فَلَا تَأْتِهِمْ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ فَلَا يَصُدُّهُمْ"، قُلْتُ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ"، قَالَ: قُلْتُ جَارِيَةٌ لِي كَانَتْ تَرْعَى غُنَيْمَاتٍ قِبَلَ أُحُدٍ وَالْجَوَّانِيَّةِ: إِذْ اطَّلَعْتُ عَلَيْهَا اطِّلَاعَةً فَإِذَا الذِّئْبُ قَدْ ذَهَبَ بِشَاةٍ مِنْهَا، وَأَنَا مِنْ بَنِي آدَمَ آسَفُ كَمَا يَأْسَفُونَ، لَكِنِّي صَكَكْتُهَا صَكَّةً، فَعَظُمَ ذَاكَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: أَفَلَا أُعْتِقُهَا؟ قَالَ:" ائْتِنِي بِهَا"، قَالَ: فَجِئْتُهُ بِهَا، فَقَالَ:" أَيْنَ اللَّهُ؟" قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ:" مَنْ أَنَا؟" قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ:" أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ".
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، قوم میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو میں نے (حالت نماز میں) «يرحمك الله» کہا، اس پر لوگ مجھے گھورنے لگے، میں نے (اپنے دل میں) کہا: تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں، تم لوگ مجھے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے رانوں کو تھپتھپانا شروع کر دیا تو میں سمجھ گیا کہ یہ لوگ مجھے خاموش رہنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کرا رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، میرے ماں باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف اتنا فرمایا: نماز میں اس طرح بات چیت درست نہیں، یہ تو بس تسبیح، تکبیر اور قرآن کی تلاوت ہے، یا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں (ابھی) نیا نیا مسلمان ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ نے ہم کو (جاہلیت اور کفر سے نجات دے کر) دین اسلام سے مشرف فرمایا ہے، ہم میں سے بعض لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان کے پاس مت جاؤ۔ میں نے کہا: ہم میں سے بعض لوگ بد شگونی لیتے ہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے دلوں کا وہم ہے، یہ انہیں ان کے کاموں سے نہ روکے۔ پھر میں نے کہا: ہم میں سے کچھ لوگ لکیر (خط) کھینچتے ہیں؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبیوں میں سے ایک نبی خط (لکیریں) کھینچا کرتے تھے، اب جس کسی کا خط ان کے خط کے موافق ہوا، وہ صحیح ہے۔ میں نے کہا: میرے پاس ایک لونڈی ہے، جو احد اور جوانیہ کے پاس بکریاں چراتی تھی، ایک بار میں (اچانک) پہنچا تو دیکھا کہ بھیڑیا ایک بکری کو لے کر چلا گیا ہے، میں بھی انسان ہوں، مجھے افسوس ہوا جیسے اور لوگوں کو افسوس ہوتا ہے تو میں نے اسے ایک زور کا طمانچہ رسید کر دیا تو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گراں گزری، میں نے عرض کیا: کیا میں اس لونڈی کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے میرے پاس لے کر آؤ، میں اسے لے کر آپ کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس لونڈی سے) پوچھا: اللہ کہاں ہے؟، اس نے کہا: آسمان کے اوپر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟، اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 7 (537)، والسلام 35 (537)، سنن النسائی/السھو 20 (1219)، (تحفة الأشراف: 11378)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العتق 6 (8) مسند احمد (5/447، 448، 449)، سنن الدارمی/الصلاة 177 (1543) ویأتی ہذا الحدیث فی الأیمان (3282)، وفی الطب (3909) (صحیح)» ‏‏‏‏

Muawiyah bin al-Hakam al-Sulami said: I was praying with the Messenger of Allah ﷺ. A man in the company sneezed, and I said: May Allah have mercy on you! The people gave me disapproving looks, so I said: Woe is to me! What do you mean by looking at me? They began to strike their hand on their thighs; then I realised that they were urging me to be silent. When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer – for whom I would give my father and mother as ransom-he did not beat, scold or revile me, but said: No talk to people in lawful in this prayer, for it consists only in glorifying Allah, declaring His greatness, and reciting the Quran or words to that effect said by the Messenger of Allah ﷺ. I said: Messenger of Allah, we were only recently pagans, but Allah has brought Islam to us, and among us there are men who have recourse to soothsayers (kahins). He replied: Do not have recourse to them. I said: Among us are there are men who take omens. He replied: That is something which they find, but let it not turn them away (from what they intended to do). I said: among us there are men who draw lines. He replied: There was a prophet who drew lines; so if the line of anyone tallies with this line, that might come true. I said: A slave-girl of mine used to tend goats before (the mountain) Uhud and al-Jawaniyyah. Once when I reached her (suddenly) I found that a wolf had taken away a goat of them. I am a human being; I feel grieved as others do. But I gave her a good knocking. This was unbearable for the Messenger of Allah ﷺ. I asked: Should I set her free ? He replied: Bring her to me. So I brought her to him. He asked (her): Where is Allah ? She said: In the heaven. He said: Who am I ? She replied: You are the Messenger of Allah. He said: Set her free, for she is believer.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 930


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (537)
حدیث نمبر: 924
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابان، حدثنا عاصم، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: كنا نسلم في الصلاة، ونامر بحاجتنا، فقدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فسلمت عليه فلم يرد علي السلام، فاخذني ما قدم وما حدث، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، قال:" إن الله يحدث من امره ما يشاء، وإن الله جل وعز قد احدث من امره ان لا تكلموا في الصلاة". فرد علي السلام.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ فِي الصَّلَاةِ، وَنَأْمُرُ بِحَاجَتِنَا، فَقَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ، وَإِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ قَدْ أَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ". فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (پہلے) ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے اور کام کاج کی باتیں کر لیتے تھے، تو (ایک بار) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا تو مجھے پرانی اور نئی باتوں کی فکر دامن گیر ہو گئی ۱؎، جب آپ نماز پڑھ چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے، نیا حکم نازل کرتا ہے، اب اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں باتیں نہ کرو، پھر آپ نے میرے سلام کا جواب دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏ن / الکبری/ السہو 113 (559)، (تحفة الأشراف: 9272)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/377)، 435، 463) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی میں سوچنے لگا کہ مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد تو نہیں ہوئی ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے ہوں۔

Narrated Abdullah ibn Masud: We used to salute during prayer and talk about our needs. I came to the Messenger of Allah ﷺ and found him praying. I saluted him, but he did not respond to me. I recalled what happened to me in the past and in the present. When the Messenger of Allah ﷺ finished his prayer, he said to me: Allah, the Almighty, creates new command as He wishes, and Allah, the Exalted, has sent a fresh command that you must not talk during prayer. He then returned my salutation.
USC-MSA web (English) Reference: Book 3 , Number 924


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (989)
أخرجه النسائي (1222 وسنده حسن)
حدیث نمبر: 931
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يونس النسائي، حدثنا عبد الملك بن عمرو، حدثنا فليح، عن هلال بن علي، عن عطاء بن يسار، عن معاوية بن الحكم السلمي، قال: لما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم علمت امورا من امور الإسلام، فكان فيما علمت ان قال لي:" إذا عطست فاحمد الله، وإذا عطس العاطس فحمد الله فقل: يرحمك الله"، قال: فبينما انا قائم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة إذ عطس رجل فحمد الله، فقلت: يرحمك الله رافعا بها صوتي، فرماني الناس بابصارهم حتى احتملني ذلك، فقلت: ما لكم تنظرون إلي باعين شزر؟ قال: فسبحوا، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من المتكلم؟،" قيل: هذا الاعرابي، فدعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي:" إنما الصلاة لقراءة القرآن وذكر الله جل وعز، فإذا كنت فيها فليكن ذلك شانك". فما رايت معلما قط ارفق من رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِمْتُ أُمُورًا مِنْ أُمُورِ الْإِسْلَامِ، فَكَانَ فِيمَا عَلِمْتُ أَنْ قَالَ لِي:" إِذَا عَطَسْتَ فَاحْمَدِ اللَّهَ، وَإِذَا عَطَسَ الْعَاطِسُ فَحَمِدَ اللَّهَ فَقُلْ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ"، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا قَائِمٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ فَحَمِدَ اللَّهَ، فَقُلْتُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ رَافِعًا بِهَا صَوْتِي، فَرَمَانِي النَّاسُ بِأَبْصَارِهِمْ حَتَّى احْتَمَلَنِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا لَكُمْ تَنْظُرُونَ إِلَيَّ بِأَعْيُنٍ شُزْرٍ؟ قَالَ: فَسَبَّحُوا، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنِ الْمُتَكَلِّمُ؟،" قِيلَ: هَذَا الْأَعْرَابِيُّ، فَدَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي:" إِنَّمَا الصَّلَاةُ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَذِكْرِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، فَإِذَا كُنْتَ فِيهَا فَلْيَكُنْ ذَلِكَ شَأْنُكَ". فَمَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَطُّ أَرْفَقَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے اسلام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں چنانچہ جو باتیں مجھے معلوم ہوئیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جب تمہیں چھینک آئے تو «الحمد الله» کہو اور کوئی دوسرا چھینکے اور «الحمد الله» کہے تو تم «يرحمك الله» کہو۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی اس نے «الحمد الله» کہا تو میں نے «يرحمك الله» بلند آواز سے کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا، میں نے کہا: تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے «سبحان الله» کہا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: (دوران نماز) کس نے بات کی تھی؟، لوگوں نے کہا: اس اعرابی نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا: نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے، تو جب تم نماز میں رہو تو تمہارا یہی کام ہونا چاہیئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور مہربان کبھی کسی معلم کو نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11379) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (فلیح بن سلیمان میں سوء حفظ ہے، انہوں نے اس حدیث میں آدمی کے چھینکنے کے بعد الحمد للہ کہنے کا تذکرہ کیا ہے، معاویہ سلمی کا قول: «فكان فيما علمت... فقل: يرحمك الله» نیز یحییٰ بن ابی کثیر کی سابقہ حدیث یہ دونوں باتیں مذکور نہیں ہیں، اور اس کا سیاق فلیح کے سیاق سے زیادہ کامل ہے، فی الجملہ فلیح کی روایت اوپر کی روایت کے ہم معنی ہے، لیکن زائد اقوال میں فلیح قابل استناد نہیں ہیں، خود ابوداود نے ان کے بارے میں کہا ہے: «صدوق لا يحتج به» واضح رہے کہ فلیح بخاری و مسلم کے روای ہیں (ھدی الساری: 435) ابن معین، ابو حاتم اور نسائی نے ان کی تضعیف کی ہے، اور ابن حجر نے «صدوق كثير الخطا» کہا ہے، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود: 9؍ 353- 354)

Muawiyah bin al-Hakam al-Sulami said ; when I came to the Messenger of Allah ﷺ I learnt many things about islam. One of the things that I was taught was that it was that it was pointed out me. When you sneeze, praise Allah (I, e, say “praise be to Allah”); and when someone sneezes and praises Allah, say “ May Allah have mercy on you. Meanwhile I was standing along with the Messenger of Allah ﷺ during prayer, all of a sudden a man sneezed, and he praised Allah. So I said, “may Allah have mercy on you”, in a loud voice. The people gave me disapproving looks so much so that I took ill of it. So I said: what do you mean by looking at me with furtive glances. Then they glorified Allah. When the prophet ﷺ finished his prayer, he asked; who was the speaker? The Prophet told him; this Bedouin. The Messenger of Allah ﷺ called me and said to me: Prayer is meant for the recitation of the Quran, and making mention of Allah. When you are in it (prayer), this should be your work therein. I never saw an instructor more lenient than the Messenger of Allah ﷺ
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 931


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (990)
أخرجه البخاري في جزء القراء ة (68 وسنده حسن) فليح بن سليمان وثقه الجمھور
حدیث نمبر: 949
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا هشيم، اخبرنا إسماعيل بن ابي خالد، عن الحارث بن شبيل، عن ابي عمرو الشيباني، عن زيد بن ارقم، قال: كان احدنا يكلم الرجل إلى جنبه في الصلاة، فنزلت: وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238" فامرنا بالسكوت ونهينا عن الكلام".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كَانَ أَحَدُنَا يُكَلِّمُ الرَّجُلَ إِلَى جَنْبِهِ فِي الصَّلَاةِ، فَنَزَلَتْ: وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238" فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ وَنُهِينَا عَنِ الْكَلَامِ".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے جو چاہتا نماز میں اپنے بغل والے سے باتیں کرتا تھا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی «وقوموا لله قانتين» اللہ کے لیے چپ چاپ کھڑے رہو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) تو ہمیں نماز میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اور بات کرنے سے روک دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/العمل في الصلاة 2 (1200)، وتفسیر البقرة 42 (4534)، صحیح مسلم/المساجد 7 (539)، سنن الترمذی/الصلاة 185 (405)، وتفسیر البقرة (2986)، سنن النسائی/السھو 20 (1220)، (تحفة الأشراف: 3661)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/368) (صحیح)» ‏‏‏‏

Zaid bin Arqam said ; One of us used to speak to the man standing by his side during prayer. Then the Quranic verse “ And stand up with devotion to Allah”
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 949


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (1200) صحيح مسلم (539)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.